021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سود سے بچنے کےلئےحیلہ اختیارکرنے کاشرعی حکم
71000.خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

مفتی صاحب!اگرکوئی  گاہک آکرمجھ سے کہتا ہے کہ مجھے نقدپیسے  سود پر دیدو،تو میں ان سے کہتاہوں کہ سود حرام ہے ،آپ ایساکریں کہ مجھ سے کوئی چیز قسطوں پر خریدلواور وہ چیز کسی تیسرے غیر متعین شخص کوفروخت کرکے اپنی ضرورت پوری کر لو اور مجھے ہر ماہ اس چیز کی قسط دیدیا کرو،تویہ حیلہ کرنا جائز ہےیا نہیںَ؟اگرچہ اس مشتری کی یہی نیت ہو کہ وہ مجھ سے چیز خرید کر اسے فروخت کرکےاپنی ضرورت پوری کررہا ہو۔رہنمائی فرماکر عنداللہ ماجورہوں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہروہ حیلہ جس کےذریعےکوئی شخص کسی دوسرے کا حق باطل کرنے،یا اس کے حق میں شبہ داخل کرنےیا کسی باطل چیز پر ملمع چڑھانےکی تدبیر کرےتووہ مکروہ و ناجائز ہے اور وہ حیلہ جس کے ذریعےکوئی شخص حرام سےخلاصی حاصل کرے یا جس کے ذریعےحلال تک رسائی حاصل کرے تو وہ مستحسن ہے ۔ان دونوں قسم کے حیلوں کاذکر قرآن وحدیث میں موجود ہے۔

سوال  میں جس حیلے کاذکر ہے اس کواصطلاح میں  تورق یا بیع عینہ کہتے ہیں، اس کے بار ے میں حنفی فقہاءکے دوقول ہیں۔امام ابویوسف رح کے ہا ں جائز ہے ا ورجو اس پر عمل کرے گا وہ عنداللہ ماجورہوگا،اورامام محمد رح کے ہاں مکروہ تنزیہی ہے  ۔

حوالہ جات
[ص: 456ْسورۃ38]{ وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِهِ وَلَا تَحْنَثْ}
[يوسف: 76ص244]
{فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ}  
فتاوى قاضيخان (2/ 141)
وقال مشايخ بلخ بيع العينة في زماننا خير من البيوع التي تجري في أسواقنا وعن أَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى أنه قال العينة جائزة مأجورة  وقال أجرہ لمكان الفرار من الحرام۔
صحيح البخاري (4/ 170)
عن ابن عباس، قال: سمعت عمر رضي الله عنه، يقول: قاتل الله فلانا، ألم يعلم أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لعن الله اليهود، حرمت عليهم الشحوم فجملوها، فباعوها» تابعه جابر، وأبو هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم۔
فتح القدير للكمال ابن الهمام (7/ 213)
ثم الذي يقع في قلبي أن ما يخرجه الدافع إن فعلت صورة يعود فيها إليه هو أو بعضه كعود الثوب أو الحرير۔۔۔ فمكروه، وإلا فلا كراهة ۔۔كأن يحتاج المديون فيأبى المسئول أن يقرض بل أن يبيع ما يساوي عشرة بخمسة عشر إلى أجل فيشتريه المديون ويبيعه في السوق بعشرة حالة۔
(فقہ البیوع جلد اول ص ۵۵۴،۵۵۵)
وان ابن الھمام وافق بین قولی الکراھۃ والجواز ،فحمل الجواز علی الصورۃ الاولی ،وھی التورق،وحمل الکراھۃ علی الصورۃ الثانیۃ،وھی العینہ عند جمھورالفقھاء۔وما ذکرہ ابن الھمام رح وجیہ جدا۔ولذلک اختارہ کثیر من الحنفیۃ وافتوا بہ ََ۔

  وقاراحمد

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

20.07;1443`

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

وقاراحمد بن اجبر خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب