021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قریب کے رشتہ داروں کی موجودگی میں نواسہ اورنواسی کیلئے میراث اور وصیت کاحکم
77917وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

 ایک شخص جس کانام زیدہے اس کی ایک بیٹی فاطمہ ہے جس کا انتقال ایک سال قبل زید کی زندگی میں ہی ہوگیاہے، فاطمہ کی دو بیٹیاں ہیں جو زید کی نواسیاں ہیں، کچھ عرصہ قبل زید کا بھی انتقال ہوگیاہے،اب جب زید کی وراثت اس کی دیگرورثہ(اولاد) میں تقسیم ہوگی تو کیا زید کی  ان دو نواسیوں کو زید کی وراثت میں سے حصہ ملے گایانہیں؟

واضح رہے کہ یہ دو بچیاں زید کی نواسیاں ہیں اوران کی والدہ زید کی زندگی میں ہی وفات پاچکی ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قریب کے رشتہ دارمثلاً اولاد کی موجودگی میں شرعاً نواسہ اورنواسی نانا کی میراث سے محروم رہتے ہیں،البتہ چونکہ نانا کو اپنی زندگی میں آثارِ موت ومرضِ وفات سے پہلے اپنے کل مال میں تصرف کا حق حاصل  ہوتاہے، نیز موت کے بعد ایک تہائی مال کی وصیت کا حق بھی حاصل ہوتاہے، لہٰذااگروہ نواسہ اورنواسی کومستحق و ضرورت مند سمجھتے ہوں اوراس بناء پر ان کو کچھ دیناچاہتے ہوں  تو  اپنی زندگی میں انہیں کچھ مال دے سکتےہیں اور مرنے کے بعد ایک تہائی ترکے کے اندر اندر ان کے لیے وصیت بھی کرسکتےہیں۔

حوالہ جات
’’عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: ألحقوا الفرائض بأهلها فما بقي فهو لأولی رجل ذکر‘‘. (صحیح البخاري ۲/۹۹۷)
’’وقد ذکر الإمام أبوبکر جصاص الرازي رحمه اللّٰه في أحکام القرآن، والعلامة العیني في عمدة القاري: الإجماع علی أن الحفید لایرث مع الابن‘‘. (تکملة فتح الملهم ۲/۱۸)
’’ولو کان مدار الإرث علی الیتم والفقر والحاجة لما ورث أحد من الأقرباء والأغنیاء، وذهب المیراث کله إلی الیتامیٰ والمساکین … وأن معیار الإرث لیس هو القرابة المحضة ولا الیُتم والمسکنة، وإنما هو الأقربیة إلی المیت‘‘. (تکملة فتح الملهم ۲/۱۷-۱۸)
تفسير البغوي - (ج 2 / ص 170)
قوله تعالى: { وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ } يعني: قسمةَ المواريث، { أُولُو الْقُرْبَى } الذين لا يرثُون، { وَالْيَتَامَى
 وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُمْ مِنْهُ } أي: فارضخوا لهم من المال قبل القسمة، { وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلا مَعْرُوفًا }....وقال بعضهم -وهو أولى الأقاويل -: إن هذا على الندب والاستحباب، لا على الحتم والإيجاب.
وفی الاستذكار الجامع لمذاهب فقهاء الأمصار - (ج 7 / ص 244)
 ( والاقربون الذين تجوز لهم الوصية ليسوا بوارثين ) وهذا اجماع من علماء المسلمين انه لا وصية لوارث وان المنسوخ من اية الوصية الوالدان على كل حال اذا كانا على دين ولدهما لانهما حينئذ - وارثان لا يحجبان وكذلك كل وارث من الاقربين لقوله ( لا وصية لوارث ) .
 

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

01/ربیع الاول 1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب