021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچوں کو دیئے جانے والے سونے پر زکوۃ کاحکم
77162زکوة کابیانسونا،چاندی اور زیورات میں زکوة کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میں نے پیسوں کو اپنے بچوں کےلیے سیونگ کرنے کی غرض سے خالص سونا 24قیراط والا30گرام  کے بقدر خریدا اوریہ  بسکٹ کی شکل میں ہے اورزیورات کی شکل میں نہیں ،اس سے مقصد رقم کو سونے کی شکل میں محفوظ کرناہے اوریہ سونا گزشتہ ڈیڑھ سال سے میرے پاس ہے، چونکہ بچے ابھی نابالغ ہیں ، لڑکے کی عمر 8سال اورلڑکی کی عمر 4سال ہے اورمیری نیت یہ ہے کہ سونا میں اپنے بچوں کی شادی کے اخرجات یا ان کو اعلی تعلیم دلوانے میں خرچ کروں گا،  اسی غرض کے لیے میں نے اس کو محفوظ کیا ہے، لیکن بچے ابھی نابالغ ہیں اس لیے ملکیت کا دعویدار میں ہی ہوں اورسونا میرے پاس ہی ہے، جبکہ میں نے کئی جگہ پڑھا ہے کہ سونا ساڑھے سات تولہ ہو تو تب اس پر زکوة فرض ہے ،اس سے کم پر نہیں اورمیرے پاس جو سونا ہے  وہ تو صرف 30گرام ہے جو ساڑھے ساتھ تولہ  سے کم ہے ،کیا اس پر زکوة ہوگی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بچوں کےلیے سیونگ کرنےاوررقم کو سونے کی شکل میں محفوظ کرنے  سے اگر آپ کی مراد یہ ہو کہ ان کو مستقبل میں اعلی تعلیم دلوائیں گےآپ خودیاآپ کےبعد وہ بچے اس سونے کو بیچ دیں گے اور اس کی قیمت  ان کے کام آجائے گی تو پھرآپ  پر اس سونےکی زکاۃادا کرنا لازم ہوگی، اس لیے کہ سونا اس صورت میں آپ کی ملکیت ہےاوربچوں کو دینےکا محض آپ  نے ارادہ  کیا ہے ،باقی آپ نے جو مسئلہ پڑھا کہ ساڑھے سات تولہ سے کم پر زکوة  نہیں ہوتی یہ اس وقت ہے جب اس کے علاوہ اس کی ملکیت میں نہ چاندی ہو، نہ نقدرقم ہو ،اور نہ ہی مالِ تجارت،لیکن اگر سات تولہ سے کم سونے کے ساتھ  کچھ چاندی یا رقم یا مالِ تجارت بھی ہو  تو اس صورت میں سونے کی قیمت کو  چاندی کی قیمت یا نقدی یا مالِ تجارت کے ساتھ ملانے سے چوں کہ مجموعی مالیت چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچ جاتی ہے، اس لیے زکوة واجب ہوجائے گی۔ اورتھوڑی بہت رقم تو تقریباً سب ہی کے پاس ہوتی ہے، اس لیے مسئولہ صورت میں چاندی کا نصاب پورا ہوجائے گا۔لہذا مذکورہ 30گرام سونے پر زکوة واجب ہوگی ۔

لیکن اگر آپ نےمذکورہ سونا ان نابالغ بچوں کی ملکیت میں کردیا ہویعنی یہ بتادیا ہو کہ میں نے بچوں کےلیے یہ سونا کردیا ہےاورپھر بطور امانت اپنے پاس رکھا ہو تواس صورت میں  چونکہ سونا بچوں کی ملکیت میں جاچکا ہے (آپ کے پاس محض بطور امانت کے ہے)اوروہ بچے نابالغ ہیں اور شرعاً نابالغ کے مال پر زکوٰۃ لازم واجب نہیں ہوتی،اس لیےاس صورت میں مذکورہ سونے پر بچوں کے بالغ ہونے تک زکوٰۃ لازم نہیں ہوگی۔

حوالہ جات
وفی أحكام القرآن للجصاص - (4 / 304)
لم يختلفوا أن الحلي إذا كان في ملك الرجل تجب فيه الزكاة .
العناية شرح الهداية - (ج 12 / ص 285)
( وإذا وهب الأب لابنه الصغير هبة ملكها الابن بالعقد ) والقبض فيه بإعلام ما وهبه له ، وليس الإشهاد بشرط إلا أن فيه احتياطا للتحرز عن جحود الورثة بعد موته أو جحوده بعد إدراك الولد ( لأنه ) أي لأن الموهوب ( في قبض الأب فينوب عن قبض الهبة ) ويد مودعه كيده ( بخلاف ما إذا كان مرهونا أو مغصوبا أو مبيعا بيعا فاسدا لأنه في يد غيره ) يعني في الأولين ( أو في ملك غيره ) يعني في الأخير.
اللباب في شرح الكتاب - (ج 1 / ص 220)
(وإذا وهب الأب لابنه الصغير هبة) معلومة (ملكها الابن) الموهوب له (بالعقد) لأنه في قبض الأب؛ فينوب عن قبض الهبة، ولا فرق بين ما إذا كان في يده أو يد مودعه، لأن يده كيده، بخلاف ما إذا كان مرهونا أو مغصوبا أو مبيعا فاسدا، لأنه في يد غيره أو في ملك غيره.
تحفة الفقهاء للسمرقندي - (ج 3 / ص 168)
ولو وهب رجل لابنه الصغير شيئا صحت الهبة، لان قبض الاب كقبضه.... وعلى هذا قالوا: إذا باع الاب ماله، من ابنه الصغير، ثم هلك المبيع عقيب البيع، كان الهلاك على الصغير لانه صار قابضا بقبض الاب.
فتح القدير - (ج 19 / ص 491)
 ( وإذا وهب الأب لابنه الصغير هبة ملكها الابن بالعقد ) ؛ لأنه في قبض الأب فينوب عن قبض الهبة ، ولا فرق بين ما إذا كان في يده أو في يد مودعه ؛ لأن يده كيده ، بخلاف ما إذا كان مرهونا أو مغصوبا أو مبيعا بيعا فاسدا ؛ لأنه في يد غيره أو في ملك غيره.
الجوهرة النيرة شرح مختصر القدوري - (ج 3 / ص 417)
قوله ( وإذا وهب الأب لابنه الصغير هبة ملكها الابن بالعقد ) ؛ لأنها في قبض الأب فينوب عن قبض الهبة ولا فرق بين ما إذا كانت في يده أو في يد مودعه ؛ لأن يده كيده بخلاف ما إذا كان مرهونا أو مغصوبا أو مبيعا بيعا فاسدا ؛ لأنه في يد غيره أو في ملك غيره ، وكذا إذا وهبت له أمه وهو في عيالها والأب ميت ولا وصي له ، وكذا كل من يعوله وينبغي للأب أن يعلم أنه وهب له أو يشهد عليه كي لا يجحد هو أو غيره ؛ لأنه لا يعلم زوال ملكه إلا بذلك قوله.
وفی ’’الهداية‘‘ ولیس علی الصبی والمجنون زکوٰۃ(۲/۲۰۱)             

  سیدحکیم شاہ عفی عنہ

 دارالافتاء جامعۃ الرشید

  1/11/1443ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب