81129 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میرے چچا جن کی کوئی اولاد نہیں تھی، بیوی کے مرنے کے بعد میرے پاس رہنے لگے۔تقریباً بیس سال تک میرے پاس رہے۔ بیس سال میں نے خدمت کی اور ان کے اخراجات پورے کیے۔ان کےا نتقال کے بعد ان کا ایک سگا بھائی، تین سوتیلے بھائی، دو سوتیلی بہنیں اور دوسرے بھتیجے حیات ہیں۔ ان کی ملکیت (زمین) تقریباً دس ہزار فٹ ہے۔ کیا شریعت یہ اجازت دیتی ہے کہ جس نے اس کی بیس سال خدمت کی ہے وہ اس کی پوری ملکیت کا حقدار بن سکے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کسی بے سہارے کی خدمت پر اللہ سےبڑے اجر کی امید رکھیں، یہ عند اللہ بڑی اجر کی بات ہے۔ آخرت کے اجر کے مقابلے میں دنیا کی بڑی بڑی نعمتوں کی کوئی قدر نہیں ہے۔ سگے بھائی کی موجودگی میں سوتیلے بہن بھائی اور بھتیجے محروم ہوتے ہیں، ان کو میراث میں کچھ نہیں ملتا، سگا بھائی ہی مکمل میراث کا حقدار ہوتا ہے۔لہٰذا آپ میراث میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتے، البتہ اگر مرحوم کا بھائی آپ کو اپنی رضامندی سے کچھ دیدے تو جائز ہے۔
حوالہ جات
تسهيل الفرائض (ص: 60)
فيقدم في التعصيب الأسبق جهة، فإن كانوا في جهة واحدة، قدم الأقرب منزلة، فإن كانوا في منزلة واحدة، قدم الأقوى، وهو من يدلي بالأبوين على الذي يدلي بالأب وحده، لقول النبي صلى الله عليه وسلم: "فما بقي فهو لأولى رجل ذكر" 1، فالابن أولى من الأب لأنه أسبق جهة، والأب أولى من الجد لأنه أقرب منزلة، والأخ الشقيق أولى من الأخ لأب لأنه أقوى.
تسهيل الفرائض (ص: 54)
ميراث الأخوات لأب
ميراث الأخوات لأب، كميراث الأخوات الشقيقات على ما سبق تفصيله، بشرط أن لا يوجد أحد من الأشقاء، فإن وجد أحد من الأشقاء، فإن كان ذكراً سقطت الأخوات لأب،
عنایت اللہ عثمانی
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
08/صفر الخیر / 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عنایت اللہ عثمانی بن زرغن شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |