021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وضو کے بعد کلمۂ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف دیکھنے سے متعلق حدیث کی تحقیق
82062سنت کا بیان (بدعات اور رسومات کا بیان)متفرّق مسائل

سوال

ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو بندہ اچھی طرح وضو کرے اور پھر آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر کلمۂ شہادت پڑھے تو اس کے لیےجنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ حضرت مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ نے احسن الفتاوی(ج:10،ص: 136) میں لکھا ہے  کہ آسمان کی طرف دیکھنے کا اضافہ ثابت نہیں۔جبکہ  عام لوگوں کا اس پر عمل ہے، لہذا اس کے بارے میں صحیح بات کیاہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں ذکرکردہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے، بعض میں وضو کے بعد کلمہٴ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے یعنی "رفع نظره إلى السماء"کے الفاظ مذکور نہیں،  یہ طریق صحیح مسلم، السنن الصغری للنسائی اور سنن ابن ماجہ میں موجودہے،  چنانچہ صحیح مسلم کی روایت ملاحظہ فرمائیں:

                     صحيح مسلم (1/ 209، رقم الحديث: 234) دار إحياء التراث العربي – بيروت:

  حدثني محمد بن حاتم بن ميمون، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا معاوية بن صالح، عن ربيعة يعني ابن يزيد، عن أبي إدريس الخولاني، عن عقبة بن عامر. ح، وحدثني أبو عثمان، عن جبير بن نفير، عن عقبة بن عامر، قال: كانت علينا رعاية الإبل فجاءت نوبتي فروحتها بعشي فأدركت رسول الله صلى الله عليه وسلم قائما يحدث الناس فأدركت من قوله: «ما من مسلم يتوضأ فيحسن وضوءه، ثم يقوم فيصلي ركعتين، مقبل عليهما بقلبه ووجهه، إلا وجبت له الجنة» قال فقلت: ما أجود هذه فإذا قائل بين يدي يقول: التي قبلها أجود فنظرت فإذا عمر قال: إني قد رأيتك جئت آنفا، قال: " ما منكم من أحد يتوضأ فيبلغ - أو فيسبغ - الوضوء ثم يقول: أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبد الله ورسوله إلا فتحت له أبواب الجنة الثمانية يدخل من أيها شاء ".

بعض دیگر  طرق  میں "رفع البصر إلى السماء"  کا اضافہ منقول ہے، ان میں سے دو طرق سے متعلق محدثین اور ائمہ جرح وتعدیل رحمہم اللہ کے کلام کی روشنی میں یہاں بحث کی جائے گی:

پہلا طریق:

            پہلے طریق کو امام نسائی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں درج ذیل سند کے ساتھ  ذکرکیا ہے:

السنن الكبرى للنسائي (9/ 38، رقم الحدیث: 9832 ) مؤسسة الرسالة - بيروت:

أخبرنا سويد بن نصر بن سويد قال: أخبرنا عبد الله عن حيوة بن شريح قال: أخبرني زهرة بن معبد: أن ابن عمه، أخي أبيه لحا أخبره، أن عقبة بن عامر الجهني حدثه قال: قال لي عمر بن الخطاب: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من توضأ فأحسن الوضوء، ثم رفع بصره إلى السماء فقال: أشهد أن لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، فتحت له ثمانية أبواب من الجنة يدخل من أيها شاء"

امام نسائی رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل کتب میں بھی اس روايت کو ذکر کیا گیا ہے، طوالت کے پیش نظر یہاں صرف حوالہ جات ذکرکرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے:

1)سنن ابی داود بتحقیق الأرنؤوط (1/123، رقم الحدیث: 170) سليمان بن الاشعث السّجسْتانی، الناشر: المكتبۃ العصريۃ - بيروت۔

  1. مسند احمد بتحقیق احمد شاكر (1/ 218) الناشر: دار الحديث - قاہرہ:

  2. سنن دارمی (ص: 234،رقم الحدیث:777) ابو محمد عبد الله بن عبد الرحمن الدارمی (المتوفی:255ھ) الناشر: دار البشائر ،بيروت۔

  3. عمل اليوم والليلۃ (ص: 32، رقم الحدیث:31) احمد بن محمد بن اسحاق المعروف بابن السنی،  الناشر: دار القبلۃ  للثقافۃ الإسلاميۃ۔

  4. الكنى والأسماء للدولابی (2/ 744، رقم الحدیث: 1289) ابو بِشْر محمد بن أحمد الدولابی  (المتوفى: 310ھ) الناشر: دار ابن حزم ،  بيروت۔

  5. مسند البزار (1/361،رقم الحدیث:242) ابو بكر احمد بن عمرو المعروف بالبزار (المتوفى: 292ھ) الناشر: مكتبۃ  العلوم والحكم - المدينۃ المنورة۔

  6. مسند ابی يعلى (1/ 213) احمد بن علی الموصلی، دار المأمون للتراث،  دمشق۔

مذکورہ بالا کتب میں ذکرکردہ تمام طرق حيوة بن شريح پر جا کر جمع ہو جاتے ہیں، لہذا ان تمام طرق  میں مدارِ سند حيوة بن شريح  ہیں اور وہ  اس حدیث کو ابو عقیل زہرہ بن معبد سے اور زہرہ بن معبد اپنے چچا زاد بھائی سے روایت کرتے ہیں اور وہ  صحابی رسول حضرت عقبہ  بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے  مرفوعاً روایت کرتے ہیں۔

مذکورہ طریق کی اسنادی حیثیت:

   مذکورہ طریق پر متقدمین میں سے کسی امام کی طرف سے صحت یا ضعف کا حکم نہیں ملا، اس لیے اس طریق کی اسنادی حیثیت سند کے روایوں کے حالات پر موقوف ہےاور مذکورہ روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کل پانچ راوی ہیں ، ان میں ایک راوی کے سوا باقی سب  ثقہ راوی  ہیں اور وہ راوی ابو عقیل کے چچا کے بیٹے ہیں، جن کانام اور ان کےاحوال کا اسمائے رجال کی کتب میں ذکر نہیں ملتا، جس راوی کا نام سند میں مذکورنہ ہو اس کو محدثین کرام مبہم کہتے ہیں، جو کہ مجہول  العین کے حکم میں ہوتا ہے، اسی لیے امام منذری اور امام ابن دقیق العید رحمہما اللہ نے اس راوی کو مجہول قرار دیا ہے، البتہ  ائمہ جرح و تعدیل رحمہم اللہ نے لفظ "مجہول العین" کو پانچویں درجے کی جرح میں شمار کیا ہے اور جس راوی پر اس درجے کی جرح کی گئی ہو وہ  روایت ضعف شمار ہوتی ہے، جیسا کہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے فتح المغیث میں تصریح کی ہے۔لہذا راوی مجہول ہونے کی وجہ سے یہ طریق سنداً ضعیف ہے۔

         مختصر سنن أبي داود للمنذري (1/ 66) مكتبة المعارف للنشر والتوزيع، الرياض:

وفي لفظ لأبي داود: "فأحسن الوضوءَ، ثم رفعَ نظرَه إلى السماء. فقال. .... " وفي إسناد هذا: رجل مجهول. وأخرجه الترمذي من حديث أبي إدريس الخَوْلاني -عائذ اللَّه بن عبد اللَّه- وأبي عثمان، عن عمر بن الخطاب -رضي اللَّه عنه- مختصرًا، وفيه دعاء. وقال: وهذا حديث في إسناده اضطراب، ولا يصح عن النبي -صلى اللَّه عليه وسلم- في هذا الباب كبير شيء. قال محمد: أبو إدريس لم يسمع من عمر شيئًا.

فتح المغيث لعبد الرحمن السخاوی:(ج:1،ص:213) مكتبة السنة - مصر:

ألفاظ التجريح ۔۔۔۔۔ والحكم في المراتب الأربعة الأولى أنه لا يحتج بواحد من أهلها ولا يستشهد به، ولا يعتبر به (وكل من ذكرمن بعد) لفظ "لا يساوی شيئا" وهو ما عدا الأربع (بحديثه اعتبر) أي يخرج حديثه للاعتبار۔

سنن أبي داود بتحقیق شعیب الأرنؤوط (1/123) دار الرسالة العالمية،بيروت:

قال: شعيب أرنؤوط: إسناده ضعيف، أبو عقيل: هو زهرة بن معبد القرشي التيمي، وابن عمه لم يسم، فهو مجهول، وباقي رجاله ثقات.

دوسرا طریق :

سوال میں ذکر کی گئی روایت کے دوسرے طریق  کو  امام ابو محمد  عبد اللہ بن محمدالفاکہی  رحمہ اللہ(المتوفی: 353ھ) نے اپنی کتاب " فوائد ابی محمد الفاکہی" میں   ذكركيا  ہے اور  امام ابو محمد الفاکہی رحمہ اللہ  امام ِ حاکم اور امام دارقطنی رحمہما اللہ کے شیوخ میں سے ہیں ،  انہوں  نے اس  حدیث  کو درج ذیل سند کے ساتھ  نقل  کیا ہے:

فوائد أبي محمد الفاكهي (ص: 458، رقم الحدیث: 228) مكتبة الرشد، الرياض:

حدثنا المقرئ، نا حيوة، أخبرني أبو عقيل عن ابن عمر عن عقبة بن عامر الجهني، أنه خرج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، فجلس يوما يحدث أصحابه، فقال: «من قام إذا استقلت الشمس فتوضأ فأحسن الوضوء، ثم قام فصلى ركعتين غفرت له خطاياه وكان كما ولدته أمه». قال عقبة: فقلت: الحمد لله الذي رزقني أن أسمع هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي عمر وكان جالسا تجاهي: أتعجب من هذا، فقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أعجب من هذا قبل أن تأتي، فقلت: وماذا بأبي أنت وأمي؟ فقال عمر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من توضأ فأحسن الوضوء ثم رفع بصره أو نظره إلى السماء فقال: أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله فتحت له ثمانية أبواب من الجنة يدخل من أيتها شاء"

مذکورہ  طریق پر بھی متقدمین حضرات کی طرف سے کوئی حکم نہیں ملا، اس لیے اس کے رواة کی تحقیق ضروری ہے، اور اس سند میں  امام ابو محمد عبد اللہ الفاکہی  رحمہ اللہ  سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کل   پانچ راوی ہیں،  ان کا تعارف  ائمہ جرح وتعدیل کے  اقوال  کی روشنی میں ان کا حکم درج ذیل ہے:

  1. سب سے پہلے راوی ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن یزید القرشی المقری(المتوفیٰ: ۲۱۳ھ) ہیں،  یہ مکہ مکرمہ میں رہتے تھے  ، ان کے اساتذہ میں امام حرملہ بن عمران ، حماد بن زید ، حماد بن سلمہ اور حیوہ بن شریح مصری رحمہم اللہ  وغیرہ کے نام شامل ہیں  اور ان کے تلامذہ میں امام ابو محمد الفاکہی ، امام احمد بن حنبل اور امام بخاری رحمہم اللہ  وغیرہ کے نام ذکرکیے جاتے ہیں۔ان کو   اسمائے رجال پر لکھی گئی مشہور کتاب "تہذیب الکمال" کے مصنف علامہ مزی نے امام ابو حاتم اور امام نسائی رحمہمااللہ کے حوالے سے ثقہ نقل  کیا ہے اور کتبِ ستہ کے مصنفین رحمہم اللہ نے ان کی احادیث کو اپنی کتب میں  نقل کیا ہے:

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (16/320، رقم الترجمة: 3666) لجمال الدین الحافظ المزی (المتوفی:742) مؤسسة الرسالة - بيروت:

ع: عبد الله بن يزيد القرشي ، العدوي، أبو عبد الرحمن المقرئ القصير، مولى آل عمر بن الخطاب. أصله من ناحية البصرة، وقيل: من ناحية الأهواز، سكن مكة. روى عن: جويرية بن أسماء الضبعي (س) ، وحرملة بن عمران التجيبي (بخ د) ، وحماد بن زيد، وحماد بن سلمة، وحيوة بن شريح المصري (ع) ، وداود بن أبي الفرات (س)، وسعيد بن أبي أيوب (ع) ، وسفيان الثوري، وشعبة بن الحجاج ۔۔۔۔۔۔۔۔ روى عنه: البخاري (ت) وإبراهيم بن عبد الله بن المنذر الباهلي الصنعاني (ت) وإبراهيم بن المنذر الحزامي، وإبراهيم بن هانئ النيسابوري، وأحمد بن حنبل۔

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (16/ 322) مؤسسة الرسالة - بيروت:

قال أبو حاتم: صدوق. وقال النسائي: ثقة. وقال أبو يعلى الخليلي: ثقة، حديثه عن الثقات محتج به، ويتفرد بأحاديث وابنه محمد ثقة متفق عليه............... قال البخاري : مات بمكة سنة اثنتي عشرة أو ثلاث عشرة ومئتين۔

  1. دوسرے راوی حیوہ بن شریح  بن صفوان  بن مالک التجیبی(المتوفیٰ: ۱۵۳ھ)  ہیں ، یہ بڑے زاہد، عبادت گزار اور فقيہ تھے، یہ عبد اللہ بن یزید قرشی کے استاذ ہیں، ان کی احادیث کو بھی  ائمہ ستہ رحمہم اللہ نے  اپنی کتب میں نقل کیا ہے ، ان کو  امام احمد بن حنبل ، امام اسحاق بن منصور اور امام  یحیی بن معین رحمہم اللہ نے ثقہ قراردیا ہے۔[1]

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (7/478، رقم الترجمة: 1580) مؤسسة الرسالة - بيروت:

ع: حيوة بن شريح بن صفوان بن مالك التجيبي، أبو زرعة المصري الفقيه الزاهد العابد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال عبد الله بن أحمد بن حنبل: قيل لأبي: حيوة بن شريح، وعمرو بن الحارث؟ فقال: جميعا: كأنه سوى بينهما. وقال حرب بن إسماعيل، عن أحمد بن حنبل: ثقة ثقة. وقال إسحاق بن منصور، عن يحيى بن معين: ثقة.

  1. اس سند کے تیسرے راوی  ابو عقیل زہرہ بن معبد بن عبد اللہ بن ہشام تمیمی ہیں،یہ تابعین میں سے ہیں ،انہوں نے حضرت ابن عمر، ابن زبیر اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم سے روایات لی ہیں، ان کی حضرت ابن ِ عمر رضی اللہ عنہ سے  ملاقات کا ذکر بخاری شریف  کی بعض روایات میں بھی موجود ہیں،[2]جو کہ جمہور محدثین کے نزدیک ثبوتِ سماع اور اتصالِ سند کے لیے کافی ہے، صحیح قول کے مطابق ان کی وفات  ایک سو پینتیس  ہجری(۱۳۵ھ) میں ہوئی، بعض حضرات نے ایک سو ستائیس ہجری (۱۲۷ھ)  کا قول بھی ذکر کیا ہے،  ان کوامام عبد الرحمن بن ابی حاتم نے "الجرح والتعدیل" میں اور علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الکاشف"  میں  ثقہ نقل کیا ہے:

الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (3/ 615،رقم الترجمة: 2786) دار إحياء التراث العربي – بيروت:

زهرة بن معبد أبو عقيل مديني، وجده عبد الله بن هشام من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، القرشي أدرك ابن عمر ولا أدري سمع منه أم لا؟ وروى عن أبيه وعن سعيد بن المسيب وعمر بن عبد العزيز وأبى عبد الرحمن الحبلي روى عنه الليث بن سعد وحبوة وسعيد بن أبي أيوب وابن لهيعة وضمام بن إسماعيل وأبو معن وعاصم بن عبد الله ابن جابر  ورشدين بن سعد سمعت أبي يقول ذلك.

حدثنا عبد الرحمن نا صالح بن أحمد بن حنبل  قال: قال أبي: أبو عقيل زهرة بن معبد ثقة، جده من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم. حدثنا عبد الرحمن قال سألت أبى عن زهرة بن معبد القرشي فقال: ليس به بأس، مستقيم الحديث. قلت: يحتج بحديثه؟ قال: لا بأس به.

تهذيب التهذيب (3/ 341، رقم الترجمۃ:634) مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند :

زهرة بن معبد بن عبد الله بن هشام بن زهرة بن عثمان بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة التيمي أبو عقيل المدني سكن مصر روى عن جده وأبيه وابن عمه ولم يسمه وابن عمر وابن الزبير وعبد الله بن السائب وسعيد بن المسيب وأبي عبد الرحمن الحبلي وأبي صالح مولى عثمان والحارث مولى عثمان وعبد الرحمن بن حجيرة وعمر بن عبد العزيز وأبي عبيدة بن عقبة بن نافع. وعنه حيوة وسعيد بن أيوب والليث وابن لهيعة۔[3]

4،5۔اس سند کے چوتھے راویحضرت ابن ِ عمر اور پانچویں راویحضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما ہیں، جو مشہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہماجمعین میں سے ہیں، جن کی عدالت پر امت کا اتفاق ہے۔

 گزشتہ عبارات سے معلوم   ہوا کہ  اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں اور ان کے درمیان اتصال بھی موجودہے، کیونکہ  پہلے تین رواۃ نے اس حدیث کو صیغہٴ تحدیث اور اخبار سے بیان فرمایا ہے، جو کہ اتصال پر دلالت کرتے ہیں، چوتھے نمبر کے راوی ابو عقیل زہرہ بن معبد نے حضرت ابن عمر اور عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما سے صیغہٴ عن سے نقل کیا ہے اور حدیثِ معنعن کے رواۃ کے درمیان اتصال کے  سلسلہ میں محدثین ِ کرام رحمہم اللہ نے امام مسلم رحمہ اللہ کے مذہب  کو راجح قرار دیا ہے  اور  امام مسلم رحمہ اللہ کا مذہب یہ  ہے کہ رواة کے درمیان  اتصالِ کے لیے دو شرطوں کا پایا جانا کافی ہے: اول یہ کہ راوی مدلس نہ ہو، دوم یہ کہ  راوی اور مروی عنہ کے درمیان معاصرت اور  امکان ِ لقاء  موجود ہو۔  یہاں یہ دونوں شرطیں پائی جارہی ہیں، کیونکہ مذکورہ رواۃ میں سے کسی کی طرف تدلیس کی نسبت بھی نہیں کی گئی اور تاریخِ وفیات کی رُوسے رواۃ کے درمیان  معاصرت اور ملاقات  کا  امکان بھی موجود ہے، بلکہ اسمائے رجال کی کتب میں موجود ان رواۃ کی آپس میں ملاقات کی تصریح مذکور ہے، جیسا کہ عبارات پیچھے گزر چکی ہیں:

شرح علل الترمذی  لابن رجب الحنبلی:(ج:2،ص: 588) مكتبة المنار،الأردن:

کثیر من العلماء المتاخرین علی ما قالہ مسلم رحمہ اللہ: من أن إمکان اللقاء کاف فی الاتصال من الثقۃ غیر المدلس، وھو ظاھر کلام ابن حبان وغیرہ۔

مذکورہ  طریق کی اسنادی حیثیت:

فوائد ابی محمد الفاکہی کے مطبوعہ نسخوں میں یہ سند" عن ابن عمر عن عقبہ بن عامر" کے طریق سے مروی ہے اوراس طریق میں اگرچہ کوئی راوی ضعیف نہیں ہے، لیکن اس روایت کے دیگر مصادر میں  ابن عمر کی جگہ ابنِ عمہ کا لفظ ہے اور بظاہر یہی درست معلوم ہوتا ہے، کیونکہ پیچھے ذکر کیے گئے دونوں طرق میں مدار ِسند حیوہ بن شریح ہیں اور ان سے مروی دیگر تمام جگہوں پر ابن عمہ کا ہی لفظ منقول  ہے، چنانچہ فوائد ابی محمد فاکہی کے ایک نسخہ کی تحقیق کے دوران محقق محمد بن عبد اللہ بن عایض نے حاشیہ میں درج ذیل عبارت لکھی ہے:

حاشية فوائد أبي محمد الفاكهي (458) مكتبة الرشد، بيروت:

كذا وقع ههنا، وفي المصادر الأخرى: ابن عمه، ولم يسم، وهو من الثانية "د" التقريب: رقم الترجمة: 5809)

اس سے معلوم  ہواکہ فوائد ابی محمد الفاکہی کے نسخہ میں نقل کرنے میں تصحیف (محدثین کرام کےنزدیک تصحیف کا مطلب یہ ہے کہ ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدل دیا گیا، جیسے مراجم کو مزاحم پڑھنا) ہوئی ہے، کیونکہ عربی کتابت میں عمر اور عمہ دونوں لفظ ملتے جلتے ہیں، لہذا اصل عبارت ابن عمر کی بجائے ابن عمہ ہی درست معلوم ہوتی ہے۔اسی لیے معاصر علمائے کرام جیسے شیخ شعیب الارنؤوط، شیخ محمد عوامہ، شیخ طلحہ بلال منیار صاحب اور دیگر محققین نے اس روایت کی تحقیق کے بعد ابن عمہ کے مبہم ہونے کی وجہ سے اس  کی سند پر ضعف کا حکم لگایا ہے، لہذا جب تک حیوہ بن شریح سے مروی طریق کے علاوہ اس روایت کی کوئی اور صحیح یا حسن درجے کی سند نہیں مل جاتی،  اس وقت تک اس روایت پر اسنادی اعتبارسے ضعف کا ہی حکم لگے گا اور پھر راوی کے مبہم ہونے کی وجہ سے اگرچہ اس میں ضعف شدید نہیں آیا، لیکن چونکہ ثقات کی روایت میں یہ اضافہ منقول نہیں ہے، اس لیے یہ اضافہ زیادة الضعیف کی قبیل سے ہے اس لیے اصولِ حدیث کی روشنی میں اس کا اعتبارنہیں، کیونکہ محدثین کرام نے مصطلحاتِ حدیث میں زیادة الثقہ کوبعض صورتوں میں قبول کیا ہے، لیکن زیادة الضعیف کو ِسرے سے قبول نہیں کیا۔ لہذا ضعیف راوی کایہ اضافہ احکام اور فضائل دونوں میں مقبول اور معتبر نہیں۔

اشکال: علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے مسند الفاروق میں   امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کے حوالے سے اس حدیث پر حسن کا حکم نقل کیا ہے، اسی طرح حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے نتائج الافکار میں بھی اس روایت پر حسن کا حکم لگایا ہے اورحسن درجے کی روایت محدثین کے نزدیک قبول ہوتی ہے، لہذا یہ اضافہ بھی مقبول اور معتبر ہونا چاہیے۔

جواب:اصل میں یہ روایت صحابی رسول حضرت عقبہ عامر رضی اللہ سے ہی مروی ہے، پھر ان سے نقل کرنے والوں میں ایک ان کے چچا کے بیٹے اور دوسرے محمد ادریس خولانی ہیں، دونوں روایتوں کا مضمون بھی ایک دسرے سے ملتا جلتا ہے،اگرچہ ان میں سے ایک میں رفع بصر الی السماء کا اضافہ موجود ہےاوردوسری روایت میں یہ اضافہ نہیں ہے، لیکن فی نفسہ مضمون ایک ہونے کی وجہ سے ان طرق  کو ایک دوسرے کے متابع قرار دیا جا سکتا ہےاور ابن عمہ والے طریق میں چونکہ ضعفِ شدید نہیں ہے، اس لیے متابعت کی بناء پر یہ طریق بھی سند کے اعتبار سے  حسن لغیرہ کا درجہ پالے گا، امام نعلی بن مدینی رحمہ اللہ نے شاید اسی وجہ سے اس کو حسن قرار دیا ہو، البتہ اضافہ کےالفاظ میں متابعت مفقود ہونے کی وجہ سے یہ اضافہ اصولِ حادیث کی روشنی میں ثابت نہیں ہو گا۔

مسند الفاروق (1/ 101) لأبي الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير الدمشقي (المتوفى: 774هـ) دار الوفاء - المنصورة:

قال عُقبة: فقلتُ: الحمدُ لله الذي رَزَقني أن أسمعَ هذا من رسولِ الله صلى الله عليه وسلم. فقال عمرُ بن الخطاب رضي الله عنه -وكان تُجَاهي جالسًا- أَتَعجبُ  من هذا؟ فقد قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم أَعجَبَ من هذا قبلَ أن تأتي؟ فقلتُ: وما ذاك بأبي أنت وأمِّي؟ فقال عمر: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مَن توضَّأَ فأَحسَنَ الوُضوءَ، ثم رَفَع بصرَه -أو نظرَه- إلى السماء، فقال: أشهدُ أنَّ لا إلهَ إلا اللهُ وحدَه لا شريكَ له، وأشهدُ أنَّ محمدًا عبدُه ورسولُه، فُتِحَتْ له ثمانيةُ أبوابِ الجنَّةِ يَدخلُ من أيِّهنَّ شاءَ».وأخرجه أبوداود، والنسائي من حديث حَيوة -وهو: ابن شُريح، عن زُهرة بن مَعبد، به. وقال علي ابن المديني: هذا حديث حسن.

وضو کے بعد کلمہٴ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف دیکھنے کا شرعی حکم:

مذکورہ  روایت اگرچہ اسنادی اعتبار سے ضعیف اور اس میں رفع بصر الی السماء کا اضافہ اصولِ حدیث کی روشنی میں ثابت نہیں، مگر اس روایت کا متن منکر نہ ہونے کی وجہ سے  درج ذیل وجوہ کی بناء پر کلمہٴ شہادت پڑھتے آسمان کی طرف سے دیکھنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے:

  1. متقدمین حنفیہ رحمہم اللہ سے کلمہٴ شہادت پڑھتے وقت رفع بصر الی السماء کی نفی منقول نہیں،متاخرین میں سے علامہ طحطاوی اور علامہ شامی رحمہم اللہ کی عبارات سے اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔

  2.  فقہائے  حنابلہ رحمہم اللہ  میں سے بعض نے اس عمل کو  "یُسن یا سُن" (سنت قرار دیا گیا ہے) اور بعض نے "یستحب" کے الفاظ ذکر کیے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ  مذکورہ روایت  ان کے ہاں معمول بہ ہے اور فقہائے حنفیہ کا اصول یہ ہے کہ اگر کسی مسئلہ میں کتبِ حنفیہ میں تصریح نہ ہو، جبکہ کسی دوسرے مذہب میں اس حکم کی تصریح ہو توایسی صورت میں اگر مسئلہ اصولِ حنفیہ کے خلاف نہ ہو تو اس پر عمل کیا جاسکتا  ہے، لہذا فضیلت حاصل کرنے  کی نیت سے  کلمہ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف نگاہ اٹھانا جائز ہے۔

  3. اس کی ایک نظیر یہ بھی ہے کہ نماز میں کلمہٴ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف سبابہ یعنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنے کا ذکر صحیح روایات میں موجود ہے، لہذا نماز کے علاوہ بھی کلمہٴ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف دیکھنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

  4. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عام حالات میں اور دعا کے وقت خاص طور پر آسمان کی دیکھنا صحیح روایات میں مذکور ہے، کیونکہ آسمان کی طرف سے دیکھنے سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلالتِ شان کا اندازہ ہوتا ہے، اسی لیے قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے اظہار کے لیے فرمایا کہ تم بار بار آسمان  کی طرف دیکھو تو اللہ کی تخلیق میں کسی قسم کا فتور اور نقص نہ پاؤ گے۔

لہذا اگر اگر کوئی شخص مذکورہ حدیث سے قطع نظر عام روایات کی بناء پر وضو کے بعد آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر کلمہٴ شہادت پڑھے تو اس کی اجازت ہے، جیسا کہ فتاوی محمودیہ(55/5)، فتاوی حقانیہ(505/2) اور تحفة المسلمین(ص:548) میں مفتی عاشق الہی صاحب رحمہ اللہ نے اجازت دی ہے، نیز احسن الفتاوی میں بھی  صرف فنی اعتبار سے مذکورہ روایت میں رفع البصر الیٰ السماء کے اضافہ کے عدمِ ثبوت کا ذکر کیا گیا ہے، فی نفسہ کلمہ شہادت پڑھتے وقت آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے کی نفی نہیں کی گئی۔[1]

حوالہ جات
تهذيب الكمال في أسماء الرجال (7/ 479) مؤسسة الرسالة - بيروت:
روى عن: إسحاق بن أسيد أبي عبد الرحمن الخراساني (د) ، وبشير بن أبي عمرو الخولاني (عخ) ، وبكر بن عمرو المعافري (خ مدت)، وجعفر بن ربيعة (س) ، وحسان بن عبد الله الأموي (س) ، وحسين بن شفي بن ماتع الأصبحي (د) ، وأبي صخر حميد بن زياد الخراط (م د ت ق) ، وأبي هانئ حميد بن هانئ الخولاني (بخ م) ، وخالد بن يزيد بن أسيد بن هدية بن الحارث الصدفي، وخالد بن يزيد المصري (م) ، وخير بن نعيم الحضرمي، ودراج أبي السمح (بخ س) ، وربيعة بن سيف، وربيعة بن يزيد الدمشقي (ع) ، وأبي عقيل زهرة بن معبد القرشي ۔۔۔۔۔۔۔۔ روى عنه: إدريس بن يحيى الخولاني، والحجاج بن رشدين بن سعد، وسعيد بن سابق بن الأزرق الرشيدي، وأبو عاصم الضحاك بن مخلد النبيل (خ م ت س ق) ، وطلق بن السمح، وعبد الله بن لهيعة، وعبد الله بن المبارك (خ م د ت س)، وعبد الله بن وهب (خ م د س ق) ، وعبد الله بن يحيى البرلسي (خ د) ، وأبو عبد الرحمن عبد الله بن يزيد المقرئ (ع)............. حيوة بن شريح وهو كندي، شريف، عدل، ثقة، رضي، توفي سنة ثمان وخمسين ومئة. وقال أبو سعيد بن يونس: مات سنة ثلاث  وخمسين ومئة. روى له الجماعة.
[2] صحيح البخاري (3/ 141، رقم الحدیث: 2501) دار طوق النجاة:
حدثنا أصبغ بن الفرج، قال: أخبرني عبد الله بن وهب، قال: أخبرني سعيد، عن زهرة بن معبد، عن جده عبد الله بن هشام، وكان قد أدرك النبي صلى الله عليه وسلم، وذهبت به أمه زينب بنت حميد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله بايعه، فقال: «هو صغير فمسح رأسه ودعا له» وعن زهرة بن معبد، أنه كان يخرج به جده عبد الله بن هشام إلى السوق، فيشتري الطعام، فيلقاه ابن عمر، وابن الزبير رضي الله عنهما، فيقولان له: «أشركنا فإن النبي صلى الله عليه وسلم قد دعا لك بالبركة»، فيشركهم، فربما أصاب الراحلة كما هي، فيبعث بها إلى المنزل۔                    
[3] الكاشف (1/ 407) للعلامة محمد عثمان الذهبي المتوفى: 748ھ، دار القبلة للثقافة الإسلامية - مؤسسة علوم القرآن، جدة:
زهرة بن معبد أبو عقيل التيمي القرشي عن جده عبد الله بن هشام وابن عمر وعنه الليث ورشدين كان من الاولياء ووثق، مات 135ھ۔
المنتظم في تاريخ الملوك والأمم (7/328) لعبد الرحمن ابن الجوزي (المتوفى: 597ه) دار الكتب العلمية، بيروت:
زهرة بن معبد بن عبد الله بن هشام، أبو عقيل التميمي: مدني سكن مصر، روى عن ابن عمر، وابن الزبير. روى عنه الليث، وابْن لهيعة وآخر من حدث عنه رشدين، وتوفي في هذه السنة.
منتهى الإرادات (1/ 55) تقي الدين محمد بن أحمد الشهير بابن النجار (972هـ) مؤسسة الرسالة،بيروت:
وسن لمن فرغ رفع بصره إلى السماء وقول: أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله۔
مطالب أولي النهى في شرح غاية المنتهى (1/ 120) مصطفى بن سعد بن عبده السيوطي الحنبلي (المتوفى: 1243هـ) المكتب الإسلامي،بيروت:
 (وسن لمن فرغ من وضوء وغسل رفع بصره) إلى السماء (وقول: أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله)
حاشية ابن عابدين (1/ 128) دار الفكر-بيروت:
وزاد في المنية: وأن يقول بعد فراغه «سبحانك اللهم وبحمدك، أشهد أن لا إله إلا أنت، أستغفرك وأتوب إليك، وأشهد أن محمدا عبدك ورسولك ناظرا إلى السماء»
حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح:ص: 77، ط: دار الکتب العلمیة والإتيان بالشهادتين بعده" ذكر الغزنوي أنه يشير بسبابته حين النظر إلى السماء۔۔۔الخ

محمدنعمان خالد

دارالافتاء جامعۃ الرشید، کراچی

20/جمادی الاولیٰ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے