021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سسرکی دھمکی کی وجہ سےطلاق نامہ پر دستخظ کردیےتوکیاحکم ہے
81939طلاق کے احکاممدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

سوال

سوال: السلام علیکم میرا نام محمد عثمان آصف ہے۔میرا نکاح 2 نومبر 2022 کو دو گواہان اختر حبیب اور عبد الواحد کے روبرو حق مہر 2 لاکھ روپے عندلیب خالق سیال کیساتھ ہوا۔جس کےبعد ہم دونوں پڑھ رہے تھے، میری عمر 21 سال تھی اور لڑکی کی عمر 19 سال، ہم دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم  زیر تعلیم ہونے کی وجہ سے اپنے گھر چلے گئے ہم دونوں میاں بیوی کے درمیان تعلقات بہت اچھے تھے، کچھ عرصہ بعد لڑکی کی جانب سے مجھے کہا گیا کہ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہوں ،اس لیئے ہم دونوں گھر بات کرکے شادی کرتے ہیں، جس پر میں نے اپنے گھر بات کی میرے گھر والے رضا مند ہوگئے اور لڑکی کے گھر والوں نے انکار کردیا ،جس کےبعد مجبوراً ہم نے گھر پر نکاح کا بتا دیا، جس کےبعد لڑکی کے گھر والوں نے فیصلہ کیا کہ ہم رسم رکھ کر چند ماہ بعد سادگی سےشادی کردینگے، جس پر دونوں خاندان رضا مند ہوگئے،اس کےبعد میرے سسر نے مجھے میرے ہمسائے دوست جو  ان کے ساتھ آرمی میں ہوتا تھا اس کے ذریعے دھوکے سے 35 دن قبل بلایا اور آفس جانے پر سختی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ طلاق نامہ ہے اس پر دستخط کردو، ہم آپ سے دشمنی نہیں چاہتے، میں نے اپنی جان خلاصی کرنے کے لیے ٹال مٹول شروع کی تاکہ میں دستخط نہ کروں، میں نے ان سے کہا میرے والد یہاں نہیں ہے اگر آپ بتاتے میں انہیں بھی لیکر آتا پھر میں فیصلہ کرتا کیا کرنا ہے، جس پر میرے سسر نے کہا کہ اپنے والد کو فون ملاؤ میں جانتا تھا کہ اگر میرے والد یہاں آگئے تو کوئی بھی جانی نقصان یا بات دشمنی کی طرف جا سکتی ہے کیونکہ وہ آرمی ریٹائرڈ اور سیال برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ طلاق نامہ نہ میں نے خود تحریر کیا تھا نہ ہی میری رضا مندی تھی نہ ہی میں نے منہ سے طلاق دی،صرف دستخط کیےہیں۔اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر میری  طلاق واقع نہیں ہوئی تو میں بذریعہ عدالت لڑکی کو اپنے ساتھ لے جاؤنگا ۔لہذامیری رہنمائی فرمائیں کہ میری طلاق ہوگئی ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگرآپ کو یقین تھاکہ سسرکےبلانےپروالد آجاتےتو جانی نقصان ہوجاتا،اسی طرح یہ بھی یقین ہوکہ اگرطلاق نامہ پردستخظ نہ کیاگیاتوسسر جانی نقصان پہنچاسکتاہے،ایسی صورت میں طلاق نامہ پردستخط کرنےسےطلاق واقع نہیں ہوئی،بشرطیکہ طلاق نامہ خودنہ لکھاہونہ لکھوایاہو،نہ زبان سےطلاق کےالفاظ دہرائےہوں۔

اگرمذکورہ بالاصورت نہ ہویعنی سسریاوالدکی کی طرف سےجانی نقصان پہنچانےکایقین نہ ہویاپھرطلاق نامہ خود بنوایایاخودقصدادستخط کیےہوں یا پھر زبا ن سےطلاق کےالفاظ دہرالیےہوں توان سب صورتوں میں طلاق واقع ہوجائےگی،پھراگردستخط کےوقت یہ پتہ ہوکہ طلاق نامہ میں کتنی طلاق لکھی ہیں تواتنی ہی  طلاقیں واقع ہوجائیں گی،اوراگریہ پتہ نہ ہو، صرف یہ پتہ ہوکہ یہ طلاق نامہ ہے،توصرف ایک رجعی طلاق واقع ہوگی ۔

حوالہ جات
"حاشية رد المحتار" 3 / 271:
وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اه ملخصا۔
"رد المحتار" 10 / 458:
وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق ، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية ۔
"الفتاوى الهندية " 8 / 365:
رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان ۔

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

10/جمادی الاولی     1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے