81933 | طلاق کے احکام | مدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم |
سوال
سوال: طلاق بذریعہ خلع کا پیپر میں نے ساتھ لف کیا ہوا ہے ۔ تفصیل یہ ہے کہ میری اور میری بیوی کا چھوٹا سا جھگڑا تھانوکری نہ ہونے کی وجہ سے،جس بنا پر وہ والدین کے گھر چلی گئی، میں بھی وہاں چلا گیا تو وہ مجھے وہاں طعنے دینے لگی، جس بنا پر میں غصے میں واپس اپنے گھر آگیا تھا پھر تین دن بعد میری بیگم کے بہن اور بہنوئی یہ پیپر لے کر آ گئے اور کہاکہ سائن کر دو ، میں نے کہا میں نہیں کروں گا ،تم میری بیوی سے بات کرواؤ،لیکن انہوں نے نہیں کروائی اور کہا کہ وہ بس فیصلہ چاہتی ہے،اس لیے اس پر سائن کردو ورنہ پھر تھانے میں بند کروا دیں گے اور ایسی پٹائی ہو گی کہ زندگی بھر یا د رکھو گے،اس طرح کافی معاملات خراب ہو گیے اور آپس میں گالی گلوچ ہو گئی تھی،اس لیے میرے ماموں نے کہا کہ بیٹا بس سائن کردو اور ان سے جان چھڑوا دو، شور شرابااور گالی گلوچ بہت زیادہ ہو گیاتھا تو میں نے اس پر مجبورا سائن کر دیے ،وہ مجھ سے منہ سے بھی بولنے کا کہہ رہے تھے، لیکن میں نےزبان سے کچھ نہیں کہا ، پھر کچھ دنوں کے بعد بیوی سے رابطہ ہوا، اس نے کہا کہ میں نے بھی خوشی سے سائن نہیں کیے، مجھے امی اور خالہ نے کہا تھا، اس لیے میں نے سائن کر دیے۔اب معلوم یہ کرنا ہے کی طلاق ہوئی یا نہیں؟ اب میری بیوی اور اس کے گھر والے واپس بھیجنے کے لیے تیار ہیں ۔ شرعی طور پر کیا ہم دوبارہ ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
طلاق دینے کے ارادہ کے بغیرطلاق نامہ پر دستخط کرنے سے طلاق واقع ہونےیا نہ ہونے میں یہ تفصیل ہےکہ اگر یہ دستخط جبر کے ماحول میں کروائے گئے کہ غیر معمولی مار پیٹ کی دھمکی دی گئی تھی یا پولیس تھانے میں بندکرونےکی دھمکی دی گئی تھی اور دھمکی دینے والا اس پر قدرت بھی رکھتا تھا،نیز دستخط نہ کرنے کی صورت میں دھمکی کو واقع کرنے کا یقین یا ظن غالب بھی ہو تو ایسی صورت میں جبر کا ماحول ہونے کی وجہ سے دستخط کرنے سے طلاق نہیں ہوتی۔ (احسن الفتاوی: ج ۵، ص ۱۶۵، فتاوی دار العلوم زکریا : ج ۴، ص (۱۷۲) اور اگر دستخط کسی قسم کے جبر کے ماحول میں نہ ہوں تو دستخط سے طلاق ہوجاتی ہے،ایسی صورت میں طلاق کی نوعیت اورعددکامداراس طلاق نامہ میں مذکور طلاقوں کی تعبیر و عدد پر ہو گا۔
جوتحریرساتھ لف ہے،اس کاعنوان ہے"اقرارنامہ بیان حلفی مطالبہ طلاق "اس میں بیوی کی طرف سےخلع کامطالبہ ہےاورشوہرکےدستخط کامطلب یہ بنتاہےکہ شوہرخلع پرتیارہے،لہذا اگرواقعی مجبوری کی صورت نہ ہوتوبھی خلع کی وجہ سےایک طلاق بائن ہوگی،اس کےبعددوبارہ نکاح کابھی اختیار ہوگا۔بیوی اوربیوی کےوالدین اگردوبارہ رشتہ پرتیار ہیں تو دوبارہ نکاح کرلیاجائے،اس کےبعدمیاں بیوی ساتھ رہ سکتےہیں۔
مذکورہ صورت میں دھمکی بظاہرمعمولی ہے،غیرمعمولی نوعیت کاجبراوردھمکی نہیں دی گئی،اس لیےجوجبرشرعامعتبرہوتاہے،وہ نہیں پایاگیا،لہذا دوبارہ نکاح کرلیاجائےتوبہترہوگا۔
حوالہ جات
"حاشية رد المحتار" 3 / 271:
وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اه ملخصا۔
"رد المحتار" 10 / 458:
وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق ، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا كذا في الخانية ۔
"الفتاوى الهندية " 8 / 365:
رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته كذا في فتاوى قاضي خان ۔
"ردالمحتارعلی الدرالمختار" 3/444 :
وحکمہ ان )الواقع بہ (ولوبلامال )وبالطلاق (الصریح )علی مال طلاق بائن(وثمرتہ فیمالوبطل البدل کماسیجیء۔
محمدبن عبدالرحیم
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
10/جمادی الاولی 1445ھج
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمّد بن حضرت استاذ صاحب | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |