021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عورت کے چہرے کےپردےکا حکم
82021جائز و ناجائزامور کا بیانپردے کے احکام

سوال

عورت کے چہرے کے پردے کے حکم کی تفصیل بیان فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرآن کریم میں خواتین کے پردے اور اس کی تفصیلات کے بارے میں  سات آیتیں نازل ہوئی ہیں،اسی طرح ستر سے زیادہ احادیث میں قولاً اور عملاً پردہ کے احکام بتلائے گئے ہیں۔

قرآن کریم میں  مسلمان عورتوں کو بھی وہی حکم دیا گیا ہے   جس کی مخاطب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن  ہیں، چنانچہ سورہ احزاب آیت نمبر59 میں  رسول اللہ ﷺ کی بنات ِ طیبات اور امہات المؤمنین کے لیے "ونساء

المؤمنین" فرماکر چہرے کے پردے  کے اس حکم میں تمام مؤمن عورتوں کو شامل فرمایا گیا :

يا أيها النبي قل لأزواجك وبناتك ونساء المؤمنين يدنين عليهن من جلابيبهن ذلك أدنى أن يعرفن فلا يؤذين وكان الله غفورا رحيما (سورہ احزاب:59)

ترجمہ:اے نبی!تم اپنی بیویوں ،اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سےکہہ دو کہ وہ اپنی چادریں اپنے (منہ کے )اوپرجھکا لیا کریں،اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی ،تو ان کو ستایا نہیں جائے گا،اور اللہ بہت بخشنے والا ،بڑا مہربان ہے۔"(آسان ترجمہ قرآن)

آیت مبارکہ کی تفسیر میں صحابہ کرام کےاقوال:

(1)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادریں لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کریں اور صرف ایک آنکھ کی جگہ کھلی رکھیں۔

 صحابی کی تفسیر حجت ہے ،بلکہ بعض علماء کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے،یعنی گویاخود رسول اللہ ﷺنے یہ تفسیر فرمائی ہے۔

(2)حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصاری خواتین گھروں سے نکلتے وقت اس سکون و اطمینان سے چلتیں ،گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور انہوں نے سیاہ رنگ کی چادریں لپیٹ رکھی ہوتیں۔ 

(3)حضرت علی رضی اللہ عنہ کے شاگردعبیدۃ السلمانی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان  ہے کہ مسلمان عورتیں سروں کے اوپر سے چادریں اس طرح اوڑھا کرتی تھیں کہ آنکھوں کے سوا کچھ ظاہر نہ ہوتا اور وہ بھی اس لیے کہ راستہ دیکھ سکیں۔

(4)حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ کے پاس خواتین  آئیں ،اور کہنے لگیں:یا رسول اللہ !مردوں نے تو اللہ کے راستے میں جہاد  کر کے بہت بلند درجات اور  فضیلت حاصل کر لی ہے،کیا ایسا کوئی عمل ہے  جس کے ذریعہ  ہم بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں  کی فضیلت پالیں؟آپﷺ نے فرمایا:تم میں سے جو عورت گھر میں بیٹھی رہے گی  وہ اللہ کے راستہ میں جہاد کر نے والوں کے عمل کو  پالے گی۔

یہ بات تو واضح ہے کہ عورتوں اور مردوں میں بے محابا اختلاط  دنیا کی پوری تاریخ میں آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم

الانبیاء ﷺ تک کسی زمانے میں درست نہیں سمجھا گیا، اور صرف اہل شرائع ہی نہیں دنیا کے عام شریف خاندانوں میں  بھی نزول حجاب سے پہلے بھی عورتوں  اورمردوں کے درمیان بے محابا اختلاط اور بے تکلف ملاقات و گفتگو کا رواج نہ تھا ۔

حجاب کا پہلا درجہ یہ ہے کہ عورتوں کا وجود اور ان کی نقل وحرکت  نامحرم مردوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو، جو گھروں کی چار دیواری کے ذریعہ ہو سکتا ہے،لیکن شریعت اسلامیہ ایک جامع اور مکمل نظام ہے جس میں انسان کی تمام ضروریات کی پوری رعایت رکھی گئی ہے، اس لیےجب عورت کو ایسی ضرورت پیش آئے  جس کی بناء پر وہ گھر سے نکلنے پر مجبور ہو،تواس کے لئے پردہ کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ سر سے پاؤں تک برقع یا لمبی چادر میں پورے بدن کو چھپا کر نکلیں ،راستہ دیکھنے کے لئے چادر میں سے صرف ایک آنکھ کھولیں، یا برقع میں جو جالی آنکھوں کے سامنے استعمال کی جاتی ہے وہ لگا لیں، ضرورت کے مواقع میں پردہ کا دوسرا درجہ بھی پہلے کی طرح سب علماء و فقہاء کے درمیان متفق علیہ ہے، مگر احادیث صحیحہ میں بوقت ضرورت برقع یا چادر میں چھپ  کر نکلنے کی صورت میں بھی چند پابندیاں عائد کی ہیں کہ خوشبو نہ لگائے ہوئے ہو، بجنے والا کوئی زیور نہ پہنا ہو، راستہ کے کنارے پر چلے، مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہو وغیرہ،

تیسرا درجہ یہ کہ چہرہ اور ہتھیلیاں  کھلی ہوں اور باقی بدن چھپا ہوا ہو ،اسے کسی زمانے میں بعض علماء نے اختیار کیا تھا،مگر بعد میں تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ اب کسی عورت  کے لیے چہرہ کھول کر نامحرم مردوں کے سامنے آنا جائز نہیں ، چاروں ائمہ میں سے امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ  کے نزدیک چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے  کی اجازت نہیں ، خواہ واقع میں فتنہ ہو یا نہ ہو، جیسے شریعت کے بہت سے احکام میں اس کی مثالیں موجود ہیں، مثلاً سفر چونکہ عادتاً مشقت و محنت کا سبب ہوتا ہے، اس لئے خود سفر ہی کو مشقت کا حکم دے کر رخصت کے تمام احکام ،سفر متحقق ہونے پر دائر کر دیئے ،خواہ سفر کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہواورکسی شخص کو سفر میں کوئی بھی مشقت نہ ہو، بلکہ اپنے گھر سے زیادہ آرام ملے، مگر قصر نماز اور روزہ کی رخصت وغیرہ کے احکام اس کو بھی شامل ہیں ۔

 قدیم فقہاء احناف کے نزدیک چونکہ چہرہ اور ہتھیلیاں حجاب سے مستثنیٰ تھیں، اس لئے ان کو کھلا رکھنے کی گنجائش بتائی گئی تھی، مگر انہوں نے ساتھ میں یہ شرط لگادی  کہ فتنہ کا  خوف نہ ہو،چونکہ عادتاً یہ شرط مفقود ہے،اس لیے کہ  عورت کی زینت کا سارا مرکز اس کا چہرہ ہے، لہذا متأخرین فقہاءحنفیہ نے بھی غیر محرموں کے سامنے چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی اجازت نہیں دی۔

خلاصہ یہ  کہ اب چاروں ائمہ کے نزدیک یہ حکم  ہےکہ خواتین کے لیے چہرہ اور ہتھیلیاں  کھول کر مردوں کے سامنے آنا  درست نہیں،اس لئے اب پردے کے صرف پہلے ہی دو درجے رہ گئے، ایک اصل مقصود یعنی عورتوں کا

گھروں کے اندر رہنا ،بلاضرورت باہر نہ نکلنا ،اور دوسرا یہ کہ ضرورت کی بنا پر برقع وغیرہ کے ذریعے چہرہ چھپاکر نکلنا ۔

حوالہ جات
 وفی تفسير ابن كثير (6/ 482):
وقال محمد بن سيرين: سألت عبيدة السلماني عن قول الله تعالى: {يدنين عليهن من جلابيبهن} ، فغطى وجهه ورأسه وأبرز عينه اليسرى.
وعن أم سلمة قالت: لما نزلت هذه الآية: {يدنين عليهن من جلابيبهن} ، خرج نساء الأنصار كأن على رؤوسهن الغربان من السكينة، وعليهن أكسية سود يلبسنها ۔
وفی   روح المعاني (11/ 264):
واختلف في كيفية هذا التستر فأخرج ابن جرير وابن المنذر وغيرهما عن محمد بن سيرين قال: سألت عبيدة السلماني عن هذه الآية يدنين عليهن من جلابيبهن فرفع ملحفة كانت عليه فتقنع بها وغطى رأسه كله حتى بلغ الحاجبين وغطى وجهه وأخرج عينه اليسرى من شق وجهه الأيسر، وقال السدي: تغطي إحدى عينيها وجبهتها والشق الآخر إلا العين، وقال ابن عباس وقتادة: تلوي الجلباب فوق الجبين وتشده ثم تعطفه على الأنف وإن ظهرت عيناها لكن تستر الصدر ومعظم الوجه،
وفی فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 259):
 واعلم أنه لا ملازمة بين كونه ليس عورةوجواز النظر إليه، فحل النظر منوط بعدم خشية الشهوة مع انتفاء العورة ولذا حرم النظر إلى وجهها ووجه الأمرد إذا شك في الشهوة ولا عورة.
وفی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (6/ 370):
(فإن خاف الشهوة) أو شك (امتنع نظره إلى وجهها) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة وإلا فحرام وهذا في زمانهم، وأما في زماننا فمنع من الشابة قهستاني وغيره
 (قوله فإن خاف الشهوة) قدمنا حدها أول الفصل (قوله مقيد بعدم الشهوة) قال في التتارخانية، وفي شرح الكرخي النظر إلى وجه الأجنبية الحرة ليس بحرام، ولكنه يكره لغير حاجة اهـ وظاهره الكراهة ولو بلا شهوة (قوله وإلا فحرام) أي إن كان عن شهوة حرم (قوله وأما في زماننا فمنع من الشابة) لا لأنه عورة بل لخوف الفتنة كما قدمه في شروط الصلاة

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

18/جمادی الاولی1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے