021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مریض کی نماز کے طریقوں کا بیان
82045نماز کا بیانمریض کی نماز کا بیان

سوال

اگر کوئی شخص بیمار ہو اور صحیح طریقے سے نماز نہیں پڑھ سکتا تو وہ نماز کیسے پڑھے گا؟ براہِ کرم میری رہنمائی فرمائیں کہ ایسا شخص کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر یا لیٹنے کی حالت میں کیسے نماز ادا کرتا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مرض کے باعث مریض کو عام طور پر دو طرح کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ایک رکوع و سجدہ وغیرہ کی ادائیگی میں مشکلات ،دوسرے وضوء و طہارت برقرار رکھنے میں دشواری۔ پہلی صورت میں:

  1. جو شخص بیمار ہو اور نماز میں مکمل قیام نہ کر سکتا ہو،وه جس قدرممکن ہو  کھڑے ہو کر نماز پڑھے جب تھک جائے تو  بقیہ نماز بیٹھ کرپڑھے۔
  2. اور اگر بیماری شدید ہو یا شدت میں اضافہ کا خدشہ ہو تو  شروع سے ہی بیٹھ کر پڑھے ۔
  3. اگر بیٹھ کر رکوع اور سجدہ بھی نہ کر سکتا ہو تو کھڑے ہو کر نمازپڑھےاور رکوع اور سجدے  بیٹھ کر اشارے سے ادا کرے،البتہ سجدے کا اشارہ رکوع سے زیادہ جھک کر کرے۔
  4.  اور اگر بیماری اس کیفیت کی ہے کہ بیٹھ کر بھی نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں  قبلہ کی طرف پاؤں کر کےسیدھا   لیٹ   جائے اور سر کے نیچے تکیہ رکھ لے تا کہ چہرہ قبلہ رخ ہو جائے اور اشارے سے  نماز پڑھے ۔ رکوع اور سجدہ کے لیے سر سے اشارہ کرے۔آنکھوں  اور بھنوؤں سے اشارہ کرنا  کافی نہیں۔ا گر   دائیں  یا بائیں کروٹ پر لیٹے اور منہ قبلہ کی طرف  کر کے اشارے سے نماز پڑھے توبھی  جائز ہے ۔

طہارت کے حوالے سےدرپیش مسائل میں اگر مریض کے اعضاء وضو پر کوئی زخم یا ایسی بیماری ہو جس پر براہ راست پانی لگنےسے وہ شدید ہو جاتی ہو تو:

  1. اس حصے کو چھوڑ کر باقی اعضاء پانی سے دھو لیے جائیں اور متاثرہ جگہ پر گیلے ہاتھ سے مسح کر لیا جائے ۔
  2. اور اگر مسح بھی نقصان کا باعث ہو تو مسح بھی چھوڑ دیا جائے اس کے بغیر ہی وضو ہو جائے گا۔
  3. اور اگر پانی کا استعمال کسی صورت بھی ممکن نہ ہو تو تیمم کر لیا جائے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رھمہ اللہ تعالى 🙁 من تعذر عليه القيام) أي كله (لمرض) حقيقي ،وحده أن يلحقه بالقيام ضرر، به يفتى. (قبلها أو فيها) أي الفريضة (أو) حكمي،بأن (خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألما شديدا) أو كان لو صلى قائما سلس بوله أو تعذر عليه الصوم ،كما مر. (صلى قاعدا)......(بركوع وسجود وإن قدر على بعض القيام) ......، (قام) لزوما بقدر ما يقدر ،ولو قدر آية أو تكبيرة على المذهب ؛لأن البعض معتبر بالكل (وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطا،بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعدا) وهو أفضل من الإيماء قائما ؛لقربه من الأرض. (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه).....(وإن تعذر القعود) ولو حكما (أومأ مستلقيا) على ظهره (ورجلاه نحو القبلة) غير أنه ينصب ركبتيه؛لكراهة مد الرجل إلى القبلة ،ويرفع رأسه يسيرا؛ليصير وجهه إليها.....(وإن تعذر الإيماء) برأسه (وكثرت الفوائت) بأن زادت على يوم وليلة (سقط القضاء عنه).( رد المحتار : 98/2 )
قال العلامة المرغيناني رحمه الله تعالى : إذا عجز المريض عن القيام صلى قاعدا يركع ويسجد ؛ لقوله عليه الصلاة والسلام لعمران بن حصين رضي الله عنه:"صل قائما فإن لم تستطع فقاعدا فإن لم تستطع فعلى الجنب تومئ إيماء" ، ولأن الطاعة بحسب الطاقة.قال:  فإن لم يستطع الركوع والسجود أومأ إيماء ، يعني قاعدا؛ لأنه وسع مثله ،وجعل سجوده أخفض من ركوعه ؛ لأنه قائم مقامهما فأخذ حكمهما ، ...... فإن لم يستطع القعود استلقى على ظهره ،وجعل رجليه إلى القبلة وأومأ بالركوع والسجود .......وإن استلقى على جنبه ووجهه إلى القبلة فأومأجاز ؛ لما روينا من قبل إلا أن الأولى هي الأولى ......فإن لم يستطع الإيماء برأسه أخرت الصلاة عنه ولا يومئ بعينيه ولا بقلبه ولا بحاجبيه . (الهداية في شرح بداية المبتدي :1/ 77)
 قال جمع من العلماء رحمهم الله تعالى : ولو كان قادرا على بعض القيام دون تمامه، يؤمر بأن يقوم قدر ما يقدر،حتى إذا كان قادرا على أن يكبر قائما ..... ولو قدر على القيام متكئا ،الصحيح أنه يصلي قائما متكئا، ولا يجزيه غير ذلك .لو قدر على أن يعتمد على عصا أو على خادم له فإنه يقوم ويتكئ، كذا في التبيين. .... وإن عجز عن القيام والركوع والسجود،وقدر على القعود يصلي قاعدا بإيماء ،ويجعل السجود أخفض من الركوع، كذا في فتاوى قاضي خان. حتى لو سوى لم يصح، كذا في البحر الرائق...... وإن تعذر القعود، أومأ بالركوع والسجود مستلقيا على ظهره ،وجعل رجليه إلى القبلة وينبغي أن يوضع تحت رأسه وسادة، حتى يكون شبيه القاعد ليتمكن من الإيماء بالركوع والسجود. وإن اضطجع على جنبه ووجهه إلى القبلة وأومأ جاز، والأول أولى، كذا في الكافي.وإن لم يستطع على جنبه الأيمن فعلى الأيسر، كذا في السراج الوهاج، ووجهه إلى القبلة، كذا في القنية.( الفتاوى الهندية : 137/1 )

ہارون  عبدالله

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی   

14 جماد ی الاولی1445ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ہارون عبداللہ بن عزیز الحق

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے