021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فضائل عشرہ ذی الحجہ و صوم عرفہ

اللہ تبارک و تعالی کا آخری دین، دین اسلام ایک کامل مذہب ہے۔ اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ نے ہر چیز، ہر مسئلے اور ہر کام کے بارے میں احکام اور ان کے فضائل واضح طور پر بیان فرمادیے ہیں۔ جن اعمال شنیعہ سے منع کیا گیا ہے ان کی قباحتیں اور ان پر وعیدیں بھی واضح ذکر کر دی ہیں ۔ جیسے بعض افعال ایسے ہیں جو دوسرے افعال پر فضیلت رکھتے ہیں اور ان کو کرنے پر بڑے اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔ اسی طرح بعض ایام ایسے ہیں جن میں کسی فعل کو کرنا عام ایام کے مقابلے میں زیادہ ثواب کا باعث ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایام میں ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں جن کی احادیث  میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي ﷺ أنه قال: ما العمل في أيام أفضل منها في هذه" قالوا: ولا الجهاد؟ قال: "ولا الجهاد، إلا رجل خرج يخاطر بنفسه وماله، فلم يرجع بشيء۔( صحیح البخاری، 2/20)

ترجمہ:’’حضرت عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دوسرے ایام کا کوئی عمل عشرۂ ذی الحجہ (یکم ذی الحجہ سے دس ذی الحجہ تک) کے دوران نیک عمل سے بڑھ کر پسندیدہ نہیں۔ صحابۂ کرام رضی ﷲ عنہم نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! کیا یہ جہاد فی سبیل ﷲ سے بھی بڑھ کر ہے؟ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد فی سبیل ﷲ سے بھی بڑھ کر ہے، ہاں جس شخص نے اللہ کی راہ میں نکل کر اپنی جان اور اپنے مال کو ہلاکت اور خطرے کی جگہ ڈال دیا، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آیا (سب کچھ اللہ کے راستے میں قربان کر دیا، بے شک یہ سب سے بڑھ کر ہے)‘‘۔

انہی ایام میں ایک دن یوم عرفہ کا ہے جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

عن أبي قتادة الأنصاري رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن صومه۔۔۔۔ قال: وسئل عن صوم يوم عرفة؟ فقال: "يكفر السنة الماضية والباقية"۔۔۔( صحیح مسلم، 2/819).

ترجمہ: ’’ نبی کریم ﷺ سے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں عرض کیا گیا تو فرمایا: وہ گزشتہ ایک سال اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے‘‘۔

اہم تنبیہ:احادیث فضائل میں جہاں بھی کسی نیک عمل سے گناہوں کے معاف ہونے کا ذکر ہے ان سے صغیرہ گناہ مراد ہیں، کبیرہ گناہ بغیر توبہ و ندامت کے کسی عمل سے معاف نہیں ہوتے، مگر صغیرہ گناہوں کی معافی بھی کوئی معمولی نعمت نہیں ۔

تکبیرات ِتشریق ایک عظیم و مؤثر درس:

ذی الحجہ کے ان قیمتی ایام میں ایک عمل یہ بھی ہے کہ یوم عرفہ (نو ذی الحجہ) کی فجر سے تیرہ ذی الحجہ کی عصر تک ہر نماز کے بعد تکبیرات تشریق (ﷲ اکبر، ﷲ اکبر، لا الہ الا ﷲ وﷲ اکبر، ﷲ اکبر و للہ الحمد) کہی جاتی ہیں۔ ان ایام میں یہ تکبیرات کہنا واجب ہیں۔

 تکبیراتِ تشریق پانچ دن تک ہر نماز کے بعد کیوں کہی جاتی ہیں؟ اس لیےتا کہ ﷲ تعالیٰ کی بڑائی اور عظمت دلوں میں پختہ ہو، جس ذات کی دل میں عظمت ہوتی ہے آدمی اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتا، ہر حکم کی تعمیل کرتا ہے، بلکہ اس کے اشاروں پر چلتا ہے، اس کی چاہت کو مد نظر رکھ کر عمل کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں کسی کے حکم، کسی کے خوف و ملامت، کسی کی محبت کو خاطر میں نہیں لاتا اور دل میں جس کی عظمت نہیں ہوتی، آدمی اس کے بار بار کے حکم کی پروا نہیں کرتا۔

تکبیراتِ تشریق ہوں یا اذان و اقامت اور نماز کی تکبیرات، ان میں بار بار مسلمانوں کو جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ ﷲ تعالیٰ کی عظمت کو دلوں میں بٹھاؤ، ﷲ تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں نفس و شیطان، اعزہ واقارب، دوست احباب کسی کی بات نہ مانو، عظمت و کبریائی صرف ﷲ کے لیے ہے، صرف اسی کی اطاعت کرو، اس کی اطاعت میں آنے والی ہر رکاوٹ کا مقابلہ کرو۔

یہ حقیقت پیش نظر رکھ کر یہ تکبیرات کہنی چاہئیں، پھر اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ﷲ تعالیٰ کی عظمت و محبت دل میں پیدا ہو رہی ہے یا محض طوطے کی طرح رٹے رٹائے بول بولے جا رہے ہیں؟ ﷲ تعالیٰ کی نا فرمانی چھوٹ رہی ہے اور آخرت کی فکر دل میں پیدا ہو رہی ہے یا دن بدن دنیا کی ہوس میں اضافہ ہو رہا ہے؟

یاد رکھئے! جسمانی امراض کے نسخوں سے کوئی فائدہ حاصل کرنے کی نیت و ارادہ نہ بھی کرے تو بھی فائدہ ہو جاتا ہے، مگر روحانی امراض کے جو نسخے ﷲ تعالیٰ اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں، ان سے شفاء حاصل کرنے کا قصد و ارادہ ہو تو فائدہ ہوتا ہے، ورنہ نہیں ہوتا۔ عزم اور قصد ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ بار بار ﷲ تعالیٰ کی کبریائی کا زبان سے اقرار کرنے کا دل پر اثر نہ ہو۔

مفتی محمد 

جامعۃ الرشید احسن آباد کراچی