گاڑی آپ کو معلم کے مکان پر پہنچا دے گي جو آپ کی رہائش کے لئے معين کيا گيا ہوگا، بہتر ہے کہ آپ سامان اپنے رہائشی مکان ميں محفوظ کر کے اور غسل کر کے يا وضو نہ ہو تو وضو کر کے اسی وقت مسجدحرام جائيں،داخلہ کے وقت داياں پاؤں پہلے اندر رکھئے(مناسک ملا علي قاري: صـ ۱۲۸)
اور يہ دُعاء پڑھيے:
’’بِسْمِ ﷲِ وَالصَّلٰوةُ وَالسَّلَامُ علي رَسُوْلِ ﷲِ‘‘ ۔(المشکوٰة: صـ ۷۰، غنیۃ الناسک: صـ ۹۷)
نيز يہ دُعاء کيجئے:
’’رَبِّ اغْفِرْلِيْ ذُنُوْبِيْ وَافْتَحْ لِيْ أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ‘‘ ۔رواه الترمذی واحمد و ابن ماجہ (المشکوة: صـ ۷۰)
ترجمہ: ’’اے ميرے رب ! ميرے گناه معاف فرما اور ميرے ليے رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘
اعتکاف کی نيت کر ليجئے۔(غنية الناسک: صـ ۱۳۸) اور دوسروں کو ايذاء پہنچانے سے اِجتناب کرتے ہوئے آگے بڑھيے۔(مناسک: صـ ۱۷۴)
بيت اﷲ پر پہلی نظر:
جب بيت اﷲ پر پہلی نظر پڑے تو راستے سے ايک طرف کھڑے ہو کر تين مرتبہ ’’اللّٰهُ أکْبَر لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲ‘‘ کہیے اور ہاتھ اٹھا کر خوب دُعاء مانگئے، اس موقع پر دُخولِ جنت بلا حساب کی دعاء ضرورکيجئے، يہ قبوليت دُعاء کا خاص وقت ہے۔(فتح القدير: ۲/ ۳۵۲، غنية: صـ ۹۷)
طواف کی تياری :
مسجد ِحرام ميں داخل ہوکر پہلے تحية المسجد نہیں پڑھنی چاہیے، بلکہ طواف کرنا چاہیے، مسجد ِحرام کا تحيہ طواف ہی ہے،(رد المحتار: ۳/ ۵۷۴، غنية الناسک: صـ ۹۹، فتح القدير: ۲/ ۳۵۳) ۔لہذا دعاء سے فارغ ہوکر آپ طواف کی تياری کر ليجئے، وضو نہ ہو تو کر ليجئے اورچادر کو دائيں بغل سے نکال کر بائيں کندھے پر ڈالئے، داياں کندھا کھلا رہیے ديجئے(غنية الناسک: صـ ۹۹، هداية: ۱/ ۲۴۱، مناسک: صـ ۱۳۰)
یاد رہے کہ طواف باوضو ضرورِی ہے، عمره کا يہ طواف بے وضو کرنے سے دَم لازم ہوگا، خواه ايک ہی چکر بے وضو کيا ہو، البتہ اگر وضو کرکے طواف دوباره کر ليا تو دم ساقط ہو جائے گا۔ وضو کے بغير طواف صحيح نہ هوگا۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۳۸۔۵۴۰، دارالمعرفة)
واضح رہے کہ ا ضطباع يعنی داياں کندھا کھلا رکھنے کا حکم صرف مردوں کيلئے ہے، عورتوں کے لیے نہیں ۔(ردالمحتار: ۳/ ۶۲۹، دارالمعرفة، هداية: ۱/ ۲۵۵)
تلبيہ ختم:
تلبيه جواِحرام سے شروع ہوا تھا وه عمره کا طواف شروع کرنے پر ختم ہوجاتا ہے۔(ردالمحتار: ۳/ ۶۴۲، دارالمعرفة) اس لیے اس طواف ميں اَور اس کے بعد حج کا اِحرام باندھنے تک آپ تلبيہ نہيں پڑھيں گے۔
طواف کی نيت:
اب خانہ کعبہ کے سامنے بيت الله کی طرف منہ کرکے اس طرح کھڑے ہوں کہ پورا حجر اسود آپ کے دائيں طرف ره جائے، اس کے لئے پہلے حجر اسود کی محاذاه ميں فرش پر بنی هوئی سياه پٹی سے بھی رہنمائی حاصل کی جاسکتی تھی، ليکن اب وه پٹی ختم کردی گئی ہے، اس لئے اندازے سے ہی حجر اسود کو دائيں طرف رکھنے کا اہتمام کيجئے اور بغير ہاتھ اٹھائے طواف کی نيت کر ليجئے۔(مناسک ملا علي قاري: صـ ۱۳۰ ۔ ۱۳۱) ۔ نيت دِل کے ارادے کا نام ہے، تاہم زبان سے بھی يہ الفاظ کہہ ليں تو کوئی حرج نہیں : (مناسک ملا علي قاري: صـ ۱۰۱)
’’اے اﷲ! ميں آپ کي رضا کے ليے عمره کے طواف کا اراده کرتا هوں، آپ ميرے لئے اسے آسان فرمائيے اورقبول فرمائيے۔‘‘
اپنا رخ بيت الله کی جانب رکھتے ہوئے دائيں جانب کھسک کر حجرِ اَسود کے بالکل بالمقابل سامنے آجائيے اور کانوں تک ہاتھ اٹھا کر يہ پڑھئے:
’’بِسْمِ اللّٰهِ اَللّٰهُ أَکْبَرُ، لاَ إِله إِلاَّاللّٰهُ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ‘‘۔(حاشيه مناسک: صـ۱۳۰)
اِستلام:
پھر اَگر کسی کو ايذاء پہنچائے بغير ممکن ہو تو حجرِ اَسود کا اِستلام کيجئے، اِستلام کا مطلب يہ ہے کہ حجرِ اَسود پر اپنی دونوں ہتھيلياں اس طرح رکھئے جس طرح سجده ميں رکھی جاتی ہيں اور ہاتھوں کے درميان حجرِ اَسود کو بوسہ ديجئے۔ اگر بوسہ دينا ممکن نہ ہو تو صرف ہاتھ يا چھڑی حجرِ اَسود پر لگا کر اسے چوم ليجئے، اَگر يہ بھی ممکن نہ ہو تو دور ہی سے ہاتھ اٹھا کر ان کا رُخ حجرِ اَسود کی طرف کيجئے اورپشت اپني جانب اس طور پر کہ ہاتھ بالکل حجرِ اَسود کے بالمقابل ہوں، پھر ہاتھوں کو چوم ليجئے(ردالمحتار: ۳/ ۵۷۵۔۵۷۸، دارالمعرفة)اَور يه دُعاء پڑھيے:
’’بِسْمِ اللّٰهِ وَﷲ أکبر، أشهَدُ أَنْ لاَّ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَحْدَهٗ لَاشَرِيْکَ لَهٗ وأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ۔‘‘ رواه ابوالقاسم الاصبهاني۔(الترغيب: ۲/ ۱۲۴)
اَہم ہدايات:
1:۔کسی مسلمان کو تکليف پہنچاناحرام ہے اَور اِستلام يعنی حجرِ اَسود کو بوسہ دينا ياہاتھ لگانا مسنون ہے۔ اگر ازدحام کی وجہ سے ايذاء مسلم کے بغير بوسہ دينے کا موقع نہ ہو تو بوسہ دينا جائز نہيں، رسو ل اﷲﷺنے اس سے سختی سے منع فرماياہے، اَيسے موقع پر دور سے اِستلام کا اِشاره کر کے ہاتھ چوم لينا کافی ہے، عموماً لوگ اس ميں بہت غفلت کرتے ہيں اور ثواب کی بجائے الٹا گناه کماتے ہيں۔ (بدائع الصنائع: ۳/ ۱۱۹)
2:۔ حجرِ اَسود، رُکن يمانی اَور ملتزم پر اکثر خوشبو لگی ہوتی ہے، اس لئے حالت ِاِحرام ميں ان کو ہاتھ نہ لگائيے ورنہ دَم وغيره کا خطره هے۔ (مناسک: صـ ۳۱۳)
طواف شروع:
اِستلام يا اشارۂ استلام کے بعد دائيں طرف مڑ کر طواف شروع کرديجئے، اب حجرِ اَسود آپ کے بائيں طرف هوگا۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۷۸، دارالمعرفة)
دورانِ طواف دائيں بائيں ہر گز نہ مڑيں:
حجر اَسود کے اِستلام يا اِشاره کے سوا دَورانِ طواف خانہ کعبہ کی طرف سينہ يا پشت کرنا جائز نہیں، اس کا خصوصی خيال رکھيں۔ اگر کسی نے بيت الله کی طرف سينہ يا پشت کر کے کچھ طواف کر ليا تو اس کا اعاده لازم ہے۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۷۹)
رَمل:
طواف کے کل سات چکر هوتے هيں،(بدائع الصنائع: ۳/ ۱۲۰)۔حجرِ اَسود کے بالکل سامنے سے شروع کرکے دوباره جب حجرِ اَسود کے بالکل سامنے پہنچیں گے تو ايک چکر ہوگا۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۸۱، دارالمعرفة)
جس طواف کے بعد سعی بھی ہو اس کے پہلے تين چکروں ميں رَمل کيا جاتا ہے،(مناسک ملا علي قاري: صـ ۱۲۹) رَمل کا مطلب يہ ہے کہ اَکڑ کر شانے ہلاتے ہوئے قريب قريب قدم رکھ کرپہلوانوں کی طرح ذرا تيزی سے چلئے،(هداية: ۱/ ۲۶۱،۲۶۲)۔ باقی چار چکروں ميں حسب معمول عام رفتار سے چلئے۔ اس طواف کے بعد بھي چونکہ سعی ہے، اس لئے عمره کے اس طواف کے پہلے تين چکروں ميں بھی رَمل کیجئے۔يہ حکم مردوں کيلئے ہے، عورتيں رَمل نہ کريں، عام رفتارسے چليں۔(غنية: ۹۴، هداية: ۱/ ۱۵۵)
رُکن يمانی:
طواف کرتے ہوئے جب رُکن يمانی (بيت الله کا وه کونہ جو حجرِ اَسود کے بالمقابل الٹے ہاتھ کو ہے اَور طواف کرتے ہوئے حجرِ اَسود سے پہلے آخری نمبر پر یہی کونہ آتاہے)پر پہنچیں تو اگر دوسروں کو ايذاء پہنچائے بغير ممکن ہو تو اس پر دونوں ہاتھ يا داياں ہاتھ لگائيں اَور آگے بڑھ جائيں،دونوں ہاتھ يا داياں لگانے کا موقع نہ ہو تو باياں ہاتھ نہ لگائيں،نيز رُکن يمانی ياہاتھ کو چومنا ثابت نہیں، اس سے اِجتناب کريں۔(مناسک ملا علي القاري: ۱۳۷)
اِستلام يا اِشاره:
ہرچکر کے اختتام پر جب آپ حجرِ اَسود پر پہنچیں تو اپنے آپ کو اَور دوسروں کو ايذا ميں مبتلا کئے بغير اَگر ممکن ہو تو اِستلام کيجئے، يعنی حجرِ اَسود کو بوسہ ديجئے، ممکن نہ ہوتو دور ہی سے ہاتھوں کا اِشاره کر کے ہاتھ چوم ليجئے۔(هداية: ۱/ ۲۶۲) اس طرح طواف ميں کل آٹھ مرتبہ حجرِ اَسود کا اِستلام يا اِشاره ہوگا۔
کانوں تک ہاتھ صرف شروع ميں:
طواف ميں کانوں تک ہاتھ صرف شروع ميں اٹھائے جاتے ہيں، بعض لوگ ہر چکر کے اختتام پر جب حجرِ اَسود کے سامنے پہنچتے ہیں تو کانوں تک ہاتھ اٹھاتے ہيں، اس بارے ميں اگرچہ دونوں قول ہيں، مگر راجح يہ ہے کہ صرف ابتداء ميں ہاتھ کانوں تک اٹھائے جائيں، ہر چکر ميں نہیں۔(مناسک ملا علي قاري: صـ ۱۳۳)
دورانِ طواف کوئی مخصوص دعا ضروری نہیں:
طواف کے دَوران کوئی مخصوص دُعاء قطعاً ضروری نہیں، جو دُعاء يا د ہو اور جس ميں دِل لگے، مانگتے رہيں يا کوئی بھی ذکر کرتے رہيں، اَلبتہ حجرِاَسود کے اِستلام کے وَقت اور رُکن يمانی اور حجر اسود کے درميان جو دُعائيں حديث سے ثابت ہيں، وه ابتدا ميں ذکر کردی گئی ہيں، وه پڑھ سکتے ہيں۔ اگر کو ئی بالکل خاموش رہے تو بھی کوئی حرج نہیں۔(مناسک: صـ ۱۶۷، غنية: صـ ۱۲۱) معلّمين جو اجتماعی طو ر پر دُعاء پڑھواتے ہيں اور حاجی لوگ غلط سلط پڑھتے رہتے ہيں يا دعاؤں کے کتابچے ہاتھ ميں لئے جيسے تيسے پڑھتے رہتے ہيں، يہ طريقہ غلط اور واجب الترک ہے۔
طواف ختم:
ليجئے! آپ نے سات چکر پورے کرکے اور آخر ميں اِستلام يا اشارهٔ اِستلام کر کے طواف مکمل کرليا، اب اِضطباع (داياں کندھا کھلا رکھنا) ختم کرديجئے اَور دونوں کندھے ڈھک ليجئے۔(غنية الناسک: صـ ۱۰۶)
مقامِ اِبراہيم پر دوگانہ:
اب مقامِ اِبراہيم (وه پتھر جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہيم عليہ السلام نے بيت الله کی تعمير کی تھي) کے پيچھے،قريب ترين جگہ جہاں اطمينان سے نماز پڑھنا ممکن ہو، دو رکعت واجب طواف اَدا کيجئے(ردالمحتار: ۳/ ۵۸۵، دارالمعرفة)۔ اوردُعاء کيجئے،(مناسک ملاعلي قاري: صـ ۱۳۸) اگر رش کی وجہ سے قريب جگہ نہ ملے تو مسجد حرام ميں کسی بھی جگہ پڑھ سکتے ہيں۔بہر حال اسی مقام پر نماز پڑھنے پر اصرار کرنا اور اپني نماز اور دوسروں کا طواف خراب کرنا بہت بری بات ہے،اس سے اِجتناب کيجئے، نيز يہ خيال رکھيے کہ مکروه وَقت نہ ہو۔
ملتزم پرجانا:
طواف سے فارغ ہوکردو رکعت پڑھنے کے بعد يا اس سے پہلے اَگر بسہولت ممکن ہوتو ملتزم (بيت الله کي ديوار کا وه حصہ جو حجرِ اَسود اَور بيت الله کے دروازے کے درميان ہے) پر آجايئے اور سينہ اور داياں گال ديوار کے ساتھ چپکا کر، ہتھیلیوں کو سر کے اوپر ديوار پر پھيلا کر خوب گڑ گڑا کر دُعاء کيجئے۔1(مناسک ملا علي قاري: صـ ۱۳۸ ۔ ۱۳۹)،يہ قبوليت ِدُعاء کا خاص مقام ہے۔
زَمزم پينا:
ملتزم پر دُعاء کرنے کے بعد زَمزم پر آيئے اور بيٹھ کر،بيٹھنے کا ہجوم کی وجہ سے موقع نہ ہوتو کھڑے ہوکر، بسم الله پڑھ کر تين سانس ميں خوب جی بھر کر زَمزم پیجئے، پينے سے پہلے يہ دُعاء مانگیے: (مناسک ملا علي قاري: صـ ۱۳۹)
’’اَلّٰلھُمَّ إِ نِّيْ أَسأَلُکَ عِلمًا نَافِعًا، وَرِزْقًا وَّاسِعًا، وَّشِفَآئً مِّنْ کُلِّ دائٍ۔‘‘ رواه الدارقطني والحاکم۔ (الترغيب: ۲/ ۱۳۶)
ترجمه: ’’اے الله ! ميں آپ سے نفع دينے والا علم، کشاده روزي اَور هر بيماري سے شفا مانگتا هوںـ ـ۔‘‘
سعی:
طواف عمره کا پہلا عمل تھا جوآپ کرچکے ہيں، اب دوسرا عمل صفا و مروه کے درميان سات چکر لگانے کا ہے جسے سعی کہتے ہيں۔ اب آپ کو وضو کی ضرورت ہوتو وضو کرليجئے، سعی باوضو سنت ہے، (غنية: صـ ۱۳۵) پھر حجرا سود کے سامنے آئيے اَور مذکوره بالا طريقہ پر اِستلام يااِشارۂ اِستلام کيجئے، يہ نواں اِستلام ہوا، اس کے بعد مسجد حرام کے دروازے ’’باب الصفا‘‘ سے باہر نکلئے، يہ مستحب ہے،کسی اور دروازے سے بھی نکل سکتے ہيں۔(غنية الناسک: صـ ۱۲۸)۔نکلتے وقت باياں قدم باہر رکھیے اور دُعاء کيجئے:
’’أَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ ذُنُوْبِيْ وَافْتَحْ لِيْ أَبْوابَ فَضْلِکَ۔‘‘(کتاب الدعاء للطبراني: صـ ۱۵۰)
صفا سے سعی کی ابتداء:
صفاپر اتنا چڑھئے کہ بيت الله نظر آسکے، ہجوم يا ستونوں کی وجہ سے بيت الله نظر نہ آئے تو کوئی حرج نہیں۔(مناسک: صـ ۱۷۳ ۔ ۱۷۱) اب قبلہ رُخ کھڑے ہوکر سعی کی يوں نيت کيجئے:
’’يا اﷲ! ميں آپ کی رضا کے لئے صفا و مروه کے درميان سعی کا اراده کرتا ہوں، اس کو ميرے لئے آسان فرماديجئے اور قبول فرمايئے۔‘‘دِل سے نيت کرليناکافی ہے، زبان سے بھی کہہ ليں توکوئی حرج نہیں،(مناسک ملا علي قاري: صـ ۱۰۱) پھر حمدو ثناء کے بعد خوب دُعاء کيجئے۔(هداية: ۱/ ۲۶۳)
مروه کی طرف رَوانگی:
دُعاء کے بعد صفا سے اتر کرمروه کی طرف چلئے،(هداية: ۱/ ۲۶۳)جب سبز ستونوں کے قريب پہنچیں تو مرد حضرات اعتدال کے ساتھ دوسری طرف کے سبزستونوں تک ہلکا ہلکا دوڑيں،(مناسک: صـ ۱۷۳)خواتين نہ دوڑيں(ردالمحتار: ۳/ ۶۲۹) مرد ’’ميلين اخضرين‘‘ (سبزستونوں) کے درميان دوڑتے اورخواتين چلتے ہوئے يہ دُعاء مانگیں:
’’اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ وَارْحَمْ، وَأَنْتَ الأَعَزُّ الأَکْرَمُ۔‘‘(کتاب الدعاء للطبراني: صـ۲۷۱)
ترجمہ: ’’اے الله ! مغفرت فرما، رحم فرما، آپ ہی غالب اور عزت والے ہيں۔‘‘يہ دُعاء ياد نہ ہو تو کوئی بھی دُعاء مانگتے رہيں، بالکل خاموش رہيں تو بھی جائز ہے۔(مناسک ملا علي قاري: صـ ۱۶۷)
مروه پہنچ کر:
مروه پر پہنچ کر قبلہ رُخ ہوکر پھر دُعاء کيجئے۔(مناسک ملا علي قاري: صـ ۱۷۳)۔ يہ ايک چکر مکمل ہوگيا۔ پھر مروه سے صفا کی طرف چلئے اور ميلين اخضرين (سبز ستونوں) کے درميان مردہلکی دوڑ لگائيں، ليکن خواتين معمول کے مطابق چليں،(ردالمحتار: ۳/ ۶۲۹)۔ صفا پر پہنچیں گے تو دوسرا چکر مکمل ہوجائے گا۔
سعی کا اختتام:
اس طرح تيسرا چکر مروه پر، چوتھا چکر صفا پر، پانچواں چکر مروه پر، چھٹا چکر صفا پر اَور ساتواں چکر مروه پر ختم ہوگا۔ ہر چکر ميں سبز ستونوں کے درميان مردہلکا ہلکا دوڑيں گے اور خواتين معمول کے مطابق چلیں گی، اسی طرح جب بھی صفايا مروه پر پہنچیں تو قبلہ رُخ کھڑے ہوکر خوب خوب دُعاء مانگتے رہيں۔
دوگانۂ شکر:
اگر مکروه وقت نہ هو تو سعی سے فارغ ہوکر مطاف ميں اَيسی جگہ جہاں آپ کی نماز يا دوسروں کے طواف ميں خلل نہ ہو يا مسجد حرام ميں جس جگہ سہولت ہو شکرانہ کے دو نفل ادا کيجئے، يہ نفل مستحب ہيں۔(ردالمحتار: ۳/ ۵۸۹)
حلق يا قصر:
عمره کا تيسرا عمل حلق يا قصر ہے، سعی کے بعد مردوں کيلئے بہتر ہے کہ سارے سر کے بال منڈائيں۔(هداية: ۱/ ۲۷۱) ۔ خواتين سارے سر کے بال انگلی کے پورے کی لمبائی سے کچھ زياده کتروائيں۔(بدائع الصنائع: ۳/ ۱۰۰)
مردوں کے ليے حلق (بال منڈانا) افضل ہے مگر گنجائش اس کی بھی ہے کہ قصر کريں،( ردالمحتار: ۲/ ۵۱۵ ۔ ۵۱۶) يعنی پورے سرکے بال انگلی کے پورے کی لمبائی سے کچھ زياده کتروائيں،(بدائع الصنائع: ۳/ ۱۰۱) مگرجو لوگ قينچی لئے وہاں قريب کھڑے رہتے ہيں ان سے چند بال کتروانا حنفی محرم کے ليے هرگز کافی نهيں، اس سے اِجتناب کريں،(ردالمحتار: ۳/ ۶۱۲) ۔ ورنہ دَم واجب ہوجائے گا۔(مناسک ملا علي قاري: ۶۸ ۔ ۷۲)
عمره مکمل:
حلق يا قصرکے بعد عمره مکمل ہوگيا، اِحرام کی پابندياں ختم ہوگئيں، اَب غسل کريں، کپڑے پہنیں، خوشبو لگائيں اور گھر کی طرح رہيں، (ردالمحتار: ۳/ ۶۴۲) دِل و جان سے الله تعالیٰ کا شکر اَدا کريں کہ اس نے عمره کی سعادت بخشی۔
نفلي طواف:
اب آپ 8/ذِی الحجہ تک مکہ ميں قيام کريں گے، ان دنوں کی قدر کيجئے اوربازاروں ميں فضول گھومنے اور وقت ضائع کرنے کی بجائے وہاں کي سب سے بڑی عبادت طواف زياده سے زياده کرنے کی کوشش کيجئے اَور ہر طواف کے بعد دو رکعت واجب نماز مقامِ ابراہيم کے قريب اَدا کيجئے۔ جو وَقت طواف سے بچے اس ميں نوافل اور ذکر و تلاوت ميں مشغول رہیے۔(غنية الناسک: صـ ۱۳۷)
يہ بات مد ِنظر رکھئے کہ نفلی طواف جو عمره کے بغير کيا جاتا ہے اس ميں اِضطباع اَور رَمل نہ ہوگا، نہ اس کے بعد صفا مروه کی سعی ہوگی۔ (مناسک: صـ ۲۵۴)
مفتی محمد
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی