84368 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
میں نے اپنی بیوی کو کورٹ کے ذریعے طلاق دی تھی، طلاق کے ڈاکومنٹس منسلک ہیں۔ میں نے کسی بھی مرحلے پر اپنی بیوی کو زبان سے طلاق کا کوئی لفظ نہیں کہا ہے۔ اب ہم دوبارہ صلح کرنا چاہتے ہیں،یہاں کے علماء سے پوچھا تو کوئی کہہ رہا ہے کہ زبانی طلاق نہیں تھی اور کوٹ والی ایک طلاق شمار ہوگی تو آپ صلح کر سکتے ہیں، جبکہ کچھ حلالے کا بول رہے ہیں۔ دراصل یہاں "پرتھ" (آسٹریلیا) میں کوئی مفتی نہیں ہے، صرف امام صاحبان ہیں۔ آپ اس بارے میں شرعی حکم بتا دیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سائل نے سوال کے ساتھ آسٹریلیا کے شہر "پرتھ" کی فیملی کورٹ میں جمع کردہ طلاق کی درخواست اور اس پر عدالت کی طرف سے جاری کردہ حکم نامہ (DIVOCE ORDER) بھیجا ہے، ان دونوں کے متعلقہ حصوں کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے۔
(1)۔۔۔ عدالت میں جمع کردہ طلاق کی درخواست میں دیگر شقوں کے علاوہ ایک شق میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کی تفصیلات (Separation Details) سے متعلق ہے، اس میں سائل اور اس کی اہلیہ کی جدائی کی تاریخ 2 جون 2022ء لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد سوال لکھا ہوا ہے کہ:
At the date of separation did Badee-Uz ZMAN regard the marriage as over?
یعنی کیا جدائی کی اس تاریخ پر بدیع الزمان نے اس شادی/نکاح کو ختم سمجھ لیا تھا؟ اس کے جواب میں "Yes" یعنی "ہاں" لکھا ہوا ہے۔ دوسرا سوال یہ لکھا ہے کہ اس تاریخ کے بعد سے فریقین میاں بیوی کی طرح ساتھ نہیں رہے ہیں؟ اس کا جواب بھی "ہاں" میں لکھا ہے کہ اس تاریخ کے بعد سے ہم دونوں آپس میں میاں بیوی کی طرح ساتھ نہیں رہے ہیں۔
اس بارے میں سائل سے وضاحت طلب کی گئی کہ اس جدائی سے کیا مراد ہے؟ کیا آپ نے اپنی بیوی کو زبانی طلاق دی تھی یا کوئی اور ایسی بات کہی تھی؟ اور 2 جون 2022ء کے بعد سے آپ دونوں کے درمیان میاں بیوی والا تعلق رہا تھا یا نہیں؟ تو اس نے بتایا کہ 2 جون 2022ء کو میں نے کوئی زبانی طلاق نہیں دی تھی، نہ ہی اس سوال و جواب سے میرا مقصد طلاق دینا تھا۔ اس شق کا پسِ منظر یہ ہے کہ آسٹریلیا کی عدالت میں طلاق کی درخواست دینے سے پہلے میاں بیوی کا ایک سال الگ الگ رہنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ اس میں وہ اپنی معاشی ترتیب، اثاثوں کی تقسیم اور بچوں کے معاملات حل کر سکیں اور ٹھنڈے دماغ سے سوچ سکیں کہ طلاق ہونی چاہیے یا نہیں۔ اس الگ رہنے کو عدالت میں ثابت بھی کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے ہم دونوں میاں بیوی نے اس تاریخ یعنی 2 جون 2022ء سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، علیحدگی اختیار کرتے وقت میں نے اپنی بیوی کو زبان سے کچھ نہیں کہا تھا، ہماری آپس میں کسی قسم کی بات نہیں ہوتی تھی، جو کچھ ہوتا تھا وہ وکیلوں کے ذریعے ہوتا تھا۔ ہم کچھ عرصہ اسی گھر میں رہے، لیکن الگ الگ کمروں میں، ہمارا کھانا پینا بھی الگ الگ ہوتا تھا، پھر میں وہاں سے چلا گیا اور دوسری جگہ رہنے لگا۔ یہ الگ رہنا عدالت میں طلاق کی درخواست کے عمل کا حصہ تھا، جس کو ہم نے پورا کیا۔ جب میرے وکیل نے کورٹ کے لیے طلاق کی درخواست بنائی تھی، اس وقت میری نیت پیپر طلاق یعنی عدالت کے ذریعے طلاق دینے کی ہی تھی اور یہ کہ اگر کورٹ کی طرف سے درخواست فائنل ہونے سے پہلے ہماری آپس میں بات بن جاتی ہے تو ہم طلاق کی یہ درخواست واپس لے لیں گے، یہ بات میں نے لکھ کر کورٹ کو بھی ای میل کردی تھی، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
(2)۔۔۔ عدالتی حکم نامہ (DIVOCE ORDER) کے مطابق عدالت نے 30 اکتوبر 2023ء کو اس درخواست کی سماعت کی اور یہ حکم نامہ جاری کیا، جس میں لکھا ہے:
THE COURT ORDERS:
A divorce order be made, such divorce order to take effect and thereby terminate the marriage on the first day of December 2023.
CERTIFICATE THAT THE DIVORCE ORDER HAS TAKEN EFFECT:
I certify that the divorce order made in relation to the application of BADEE –UZ ZAMAN took effect on the first day of December 2023, thereby terminating the marriage between IMRANA SHAMIM and BADEE –UZ ZAMAN.
جس کا حاصل یہ ہے کہ عدالت 30 اکتوبر 2023ء کو درخواست دہندہ کی طلاق کی درخواست پر عمل کرتے ہوئے بدیع الزمان اور اس کی اہلیہ عمرانہ شمیم کے نکاح ختم کرنے کا آرڈر جاری کر رہی ہے، جو یکم دسمبر 2023 کو مؤثر اور نافذ العمل ہوگی۔
سائل نے بتایا کہ یہاں عدالت کے ذریعے طلاق دینے میں دستخط نہیں لیے جاتے، بلکہ درخواست میں نام، پتا وغیرہ ساری معلومات لکھی جاتی ہیں۔
اس تمہید کے بعد اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر مذکورہ بالا ساری تفصیلات درست ہیں اور آپ نے واقعتًا منسلکہ عدالتی طلاق نامے کے علاوہ اپنی بیوی کو کوئی زبانی یا تحریری طلاق نہیں دی ہے تو آپ کی بیوی پر صرف ایک طلاقِ بائن واقع ہوئی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ اب رجوع نہیں ہوسکتا، البتہ آپ دونوں باہم رضامندی سے گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر پر دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں، حلالہ کی کوئی ضرورت نہیں۔
حوالہ جات
فتاوى قاضيخان (1/ 231):
ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك، أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، أو قال: فسخت نكاحك يقع الطلاق إذا نوى.
بدائع الصنائع (3/ 107):
ولو قال: فسخت النكاح بيني وبينك ونوى الطلاق يقع الطلاق؛ لأن فسخ النكاح نقضه، فكان في معنى الإبانة.
الفتاوى الهندية (1/ 409):
ولو قال لغيره: طلق امرأتي فأبنها، أو قال: أبنها فطلقها فهو توكيل لايقتصر على المجلس، وللزوج أن يرجع عنه، وإذا طلقها الوكيل تقع واحدة بائنة، وليس لهذا الوكيل أن يوقع أكثر من واحدة، كذا في فتاوى قاضي خان.
الدر المختار (3/ 246)
فروع: كتب الطلاق إن مستبينا على نحو لوح وقع إن نوى وقيل مطلقا، ولو على نحو الماء فلا مطلقا…………. الخ
رد المحتار (3/ 246):
مطلب في الطلاق بالكتابة قوله ( كتب الطلاق الخ ) قال في الهندية: الكتابة على نوعين مرسومة وغير مرسومة. ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب، وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة وغير مستبينة، فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والأرض على وجه يمكن فهمه وقراءته، وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشيء لا يمكن فهمه وقراءته، ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو………… وفي التاترخانية:…….. لو قال للكاتب اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب، ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابه أو قال للرجل ابعث به إليها أو قال له اكتب نسخة وابعث بها إليها وإن لم يقر أنه كتابه ولم تقم بينة لكنه وصف الأمر على وجهه لا تطلق قضاء ولا ديانة وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه اه ملخصا.
الأصل للشيباني، ط قطر (11/ 412):
وإذا وكَّل الرجلين بطلاق امرأته فطلق أحدهما وأبى الآخر أن يطلق فهو جائز. فإن قال: طلقاها ثلاثاً، فطلق أحدهما واحدة وطلق الآخر اثنتين فهو جائز، وهن ثلاث. وكذلك الرسول هو في هذا بمنزلة الوكيل. وكذلك العبد يوكل بطلاق امرأته هو في هذا بمنزلة الحر. وكذلك المكاتب يوكل بطلاق امرأته فهو جائز. وكذلك العبد يعتق بعضه ويسعى في بعض قيمته. وكذلك الذمي يوكل بطلاق امرأته. فإن كان الوكيل في الطلاق في جميع ما ذكرنا عبداً أو حراً كافراً أو مسلماً صغيراً أو كبيراً رجلاً أو امرأة فهو جائز، وهو سواء.
الفتاوى الهندية (1/ 410):
الوكيل في الطلاق والرسول سواء، كذا في التتارخانية. الرسالة أن يبعث الزوج طلاق امرأته الغائبة على يد إنسان، فيذهب الرسول إليها ويبلغها الرسالة على وجهها، فيقع عليها الطلاق، كذا في البدائع.
الفتاوى الهندية (3/ 613):
إذا وكلت الذمية مسلما بخلعها من الذمي على خمر أو خنزير جاز، ولو كان أحد الزوجين مسلما والوكيل كافرا جاز الخلع ويبطل الجعل، كذا في المبسوط.
المبسوط للسرخسي (19/ 238):
قال: وإذا وكلت المرأة الذمية مسلما بخلعها من ذمي على خمر أو خنزير جاز وكذلك النكاح؛ لأن الخمر والخنزير مال متقوم في حقهم ولو كان أحد الزوجين مسلما والوکیل کافرا جاز الخلع وبطل الجعل؛ لأن الوكيل ممتثل أمره حين سمي ما هو مال متقوم في حقه، ولكن المسلم ممنوع من تملك الخمر وتملكها بالعقد، فلهذا بطل الجعل. وهذا على أصلهما ظاهر؛ لأنهما يعتبران حال الموكل، كما في التوكيل ببيع الخمر وشرائها. وعلى أصل أبي حنيفة رحمه الله هناك كذلك؛ لأن الوكيل سفير ومعبر لا يتعلق به شيء من حقوق العقد هنا، بخلاف الوكيل بالبيع والشراء.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
20/محرم الحرام/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |