021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترک گاڑی ایک شریک کودینے کامعاہدہ کرناکہ’’ کرایہ /اجرت کم ازکم بیس ہزارہوگی؟‘‘
62703شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

دو افراد زید اور عمرو نے مل کر ایک گاڑی خریدی جس میں سے دس لاکھ زید اور دس لاکھ عمرو نے ادا کیے ۔اب عمرو یہ گاڑی اپنے ساتھ کام میں چلا رہا ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ زید کو گاڑی کا کم از کم بیس ہزار روپے نفع ہر صورت میں دے گا۔کیا اس طرح نفع متعین کرنا درست ہے؟اگر جائز نہیں تو اس کی درست صورت کیا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عمرو اور زید دونوں گاڑی میں شریک ہیں اور دونوں گاڑی میں سے اپنے حصے کے مالک ہیں اس لیے زید کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنا حصہ دوسرے شریک کو کرایہ پر دے دے، اس صورت میں کرایہ کی رقم باہمی رضامندی سےمتعین کرنا ضروری ہے۔"کم از کم" کے الفاظ سےمقدار متعین نہیں ہوتی ، اس لیے یہ درست نہیں ہے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 490) وأما إجارة المشاع فإنما جازت عنده من الشريك دون غيره لأن المستأجر لا يتمكن من استيفاء ما اقتضاه العقد إلا بالمهايأة، وهذا المعنى لا يوجد في الشريك أفاده الأتقاني أي لأن الشريك ينتفع به بلا مهايأة في المدة كلها بحكم العقد والملك بخلاف غيره بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 188) أن إجارة المشاع إنما لا تجوز عند أبي حنيفة إذا أجر الرجل بعض ملكه فأما إذا أجر أحد الشريكين نصيبه فالعقد جائز بلا خلاف؛ مجلة الأحكام العدلية (ص: 204) (المادة 1060) شركة الملك هي كون الشيء مشتركا بين أكثر من واحد أي مخصوصا بهم بسبب من أسباب التملك كالاشتراء والاتهاب وقبول الوصية والتوارث أو بخلط ,
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب