03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سسرال میں مسائل کا سامنا(گھریلو اختلاف کی وجہ سے بیوی کا الگ گھر کا مطالبہ کرنا)
84465معاشرت کے آداب و حقوق کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

میری شادی کو 10سال کا عرصہ گزر چکا ہے،شادی کے شروع ہی سے ساس کے ساتھ گھریلو ناچاقی کے مسائل سے دوچار ہوں ۔ شروع سے اب تک میں سُسرال میں رہ رہی ہوں۔ میرے سُسرال میں کافی دین داری کا ماحول ہے۔ میرےگھر کا منظر کچھ یوں ہے کہ میرے سُسر کا 80 گز کا دو منزلہ گھر ہے : جس کے گراونڈ فلور پرساس اور سُسر رہتے ہیں، پہلی منزل پرمیں،میرے شوہراور میری 4 بیٹیاں۔ دوسری منزل پردیور، دیورانی اور اُن کی 4 بیٹیاں ،اس کے علاوہ میری چار نندیں ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں۔ میری ایک نندگلی میں رہتی ہیں جن کا گھر پر تقریباً روز کا آنا جانا ہے۔ مجھے ان دس سالوں میں جن مسائل کا سامنا رہا اُس کی تفصیل درج ذیل نکات میں پیش کررہی ہوں۔

 1 شروع سے ہی میری ساس کا روّیہ میرے ساتھ تحقیر آمیز رہا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بد زبانی ، فحش گوئی ، گالی گلوچ ، بہتان اور نازیبا تہمات تک پہنچ چکا ہے۔ یہاں تک کہ میرے خاندان ، میرے والد اور میری فوت شدہ والدہ کوبھی فحش گالیاں دیتی ہیں۔میری والدہ کا انتقال شادی کے 4 ماہ بعد ہوگیا تھا۔ اور ان کا یہ روّیہ دن بہ دن بد سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے جو کہ اب مزید میرے لیے ناقابل برداشت ہے ۔ کئی دفعہ میری ساس نے مجھےانتہائی برے انداز میں گھر سے نکالنے کی دھمکی بھی دی ہے اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ میرے شوہر کو کہا کہ ”اسے اس کے باپ کے گھر چھوڑ کر آ“ جو کہ میرے لیے ایک عام سی بات ہے۔  اس طرح کی بہت سی باتیں جو یہاں لکھ کر بیان نہیں کی جاسکتیں ۔کچھ عرصے پہلے میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ساحلِ سمندر گئی اور میرے شوہر نے اپنے والد کو آگاہ بھی کردیا تھا لیکن جب ساس کو پتا چلا تو انہوں نے ہمیں راستے سے واپس بلالیا اور گھر میں ایک ہنگامہ ہوگیا، کہ تم مجھ سے اجازت لے کر کیوں نہیں گئے ۔ اس دس سال کے عرصے میں اختلافات کے باوجود میں اپنے ساس اور سسر کو کھانا بنا کر بھجواتی رہی ہوں، دیگر امور خانہ داری میں بھی تعاون کرتی ہوں اور ان کے ساتھ مہذبانہ روّیہ اختیار کرتی ہوں۔ شدید دباو اور پریشانی کے معاملات کے دوران اپنے گھر والوں سے بھی اپنے سسرال والوں کا سلوک چھپاتی رہی ہوں کہ کسی بھی طرح میرا گھر ہستا بستا رہے اور میرے شوہر مجھ سے راضی رہیں۔

 2۔ حال ہی میں میری ساس نے میرےسامنے میرے والد کے بارے میں فحش گوئی کی جس کے بعد میں نے اپنے والد کی عزت کے دفاع  میں ساس کو منع کیا کہ ایسی باتیں نہ کریں تو اس کے بعد سے سسرال والوں نے میرے والد اور بھائیوں کو میرے گھر آنے سے منع کردیا۔

 3۔ میں کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے اپنے شوہر یا سُسر سے بات کرتی ہوں تو اسکی شنوائی نہیں ہوتی، بلکہ یہی کہا جاتا ہے کہ یہ معاملات اسی طرح چلیں گے اور تمھاری ساس اس سے بھی زیادہ گندی زبان استعمال کرسکتی ہیں ،ہم انہیں روک نہیں سکتے ۔ اسی طرح کچھ ہفتوں قبل بھی میرے شوہر اور سسر کا میرے بھائی اور والد کے ساتھ اسی موضوع پر بیٹھنا ہوا اور 2 گھنٹے باتیں ہوئیں ،جب بھی انہوں نے آخر میں یہی کہا کہ یہ سب ایسا ہی چلتا رہے گا۔ اس ساری صورت حا ل میں ، میں اپنے شوہر کے ساتھ علیحدہ رہنا چاہتی ہوں ۔ جبکہ میرے شو ہر کو اپنے والدین اور بچوں کو دادا دادی کے حقوق ادا کرنے اور ملنے جلنے میں میری طرف سے کوئی پابندی نہیں۔

سوال :   1 میرے شوہر کو ایسے حالات میں میرے لیے الگ گھر لے کر دینا چاہیے؟ گھر چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ، اپنا ہو یا کرایے کا ،مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بنیادی ضروریات ہوں اور بس میں عزت کے ساتھ رہ سکوں۔

سوال :  2 اگر میرے شوہر مجھے الگ گھر لے کر دے دیں تو کیا شوہرکو یہ حق ہے کہ وہ اپنی ذاتی رہائش اپنے ماں باپ کے ساتھ اختیار کریں ؟

سوال :  3 میرے والد اور میرے بھائیوں کو بھی میرے گھر آنے کی اجازت کے بارے میں بھی راہ نمائی فرمادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میاں بیوی اور ان کے متعلقین سے رشتے قاعدوں اور اصولوں کے بجائےمعافی اور درگزر پر چلتے ہیں۔بعض اوقات گھر میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص ہوتا جس کے مزاج سے پورا گھرانہ پریشان ہوتا ہے ،لیکن عمر کا تقاضہ کرتے ہوئے کبھی مجبورا انہیں بردشت کیا جاتا ہے ۔سسرال کے علاوہ ماں باپ کے گھر میں بھی ایسی صورت حال پیش آسکتی ہے۔اسلام نے تمام رشتہ داروں سے حسن معاشرت کا درس دیا ہے،ساس کو چاہیے کہ وہ بہو کو اپنی بیٹیوں کی طرح سمجھے اور دوسروں کی اذیت کے بجائے ان کی خوشی کا سبب بنے۔خواہ مخواہ کا تجسس نہ کرے ،میاں بیوی کے اپنے معاملات میں انہیں آزاد رکھے اور گالم گلوچ سے پرہیز کرے۔لیکن اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو آپ اگر ان کی باتیں برداشت کریں تو آپ کو دہرا اجر ملے گا ،حق پر ہونےکے باوجود خاموش رہنے کا اور خاندان کو توڑ سے بچانے کا ۔

         اگر آپ  برداشت نہیں کرسکتیں اور اس گالم گلوچ کے ماحول سے بچوں پر برا اثر پڑ رہا ہے ،تو چونکہ آپ کو الگ گھر پہلے سے دیا گیا ہے، اس کا راستہ الگ کر لیں اور پھر اس گھر کا انتظام آپ کے شوہر کے پاس ہو ، نہ کہ آپ  کی ساس کے پاس ۔نئے گھر کاانتظام کرنا شرعا تو شوہر پر لازم نہیں ، لیکن اخلاقا اگر اسے لگ رہا ہے کہ یوں آپ کی ازدواجی زندگی اور بچوں کی تربیت پر برے اثرات پڑ رہے ہیں اور ان کی استطاعت  بھی ہو ، اور اس بدمزگی کو روکنے کا کوئی اور طریقہ بھی نہ ہو   تو انہیں چاہیے کہ آپ کو کسی اور جگہ گھر لے کے دیں ۔وہ رہیں گے بیوی بچوں کے ساتھ ہی ،البتہ ماں با پ کی خدمت کے لیے وہ جائیں گے۔اسی طرح  شوہر اگر چاہیں کہ کسی کو اپنےگھر آنے سے روک دیں  تو انہیں حق ہے وہ روک سکتے ہیں،لیکن آپ کو والدین اور رشتہ داروں کے پاس جانے سے نہیں روک سکتے ،کیونکہ اسلام نے قطع رحمی سے سختی سے منع کیا ہے۔

     ساس سسر کی طرف پریشانیاں اکثر گھروں میں رہتی ہیں ۔ بعض گھروں میں ہاتھ اٹھانے تک کے مسائل پیش آتے ہیں۔اگر حل کی کوئی ممکنہ صورت نہ نکل سکے ، اور اس کی وجہ سے آپ اور آپ کے شوہر میں ناچاقیاں ہونے کا اندیشہ ہو یا اختلافات پیدا ہو رہے ہوں ،تو صبر کریں اور حسن اخلاق سے پیش آئیں ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں اس شخص کے لیے جنت کے اطراف میں گھر دیے جانے کی ضمانت لیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے اور اس شخص کے لیے جنت کے درمیان میں گھر کا ضامن ہوں جو مذاق میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور اس شخص کے لیے جنت کے بالائی حصے میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو اچھےاخلاق کا مالک بن جائے۔

حوالہ جات

أبي داود (4/ 253 ت محيي الدين عبد الحميد):

حدثنا محمد بن عثمان الدمشقي أبو الجماهر، قال: حدثنا أبو كعب أيوب بن محمد السعدي، قال: حدثني سليمان بن حبيب المحاربي، عن أبي أمامة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌أنا ‌زعيم ‌ببيت ‌في ربض الجنة لمن ترك المراء وإن كان محقا، وببيت في وسط الجنة لمن ترك الكذب وإن كان مازحا وببيت في أعلى الجنة لمن حسن خلقه۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (24/ 63):

حقوق الزوجة الخاصة بها:

للزوجة على زوجها حقوق مالية وهي: المهر، والنفقة، والسكنى، وحقوق غير مالية: كالعدل في القسم بين الزوجات، وعدم الإضرار بالزوجة»

الموسوعة الفقهية الكويتية(25/ 109):

«فالجمع ‌بين ‌الأبوين ‌والزوجة في مسكن واحد لا يجوز (وكذا غيرهما من الأقارب) ولذلك يكون للزوجة الامتناع عن السكنى مع واحد منهما؛ لأن الانفراد بمسكن تأمن فيه على نفسها ومالها حقها، وليس لأحد جبرها على ذلك. وهذا مذهب جمهور الفقهاء من الحنفية والشافعية والحنابلة

الموسوعة الفقهية الكويتية (25/ 112):

ذهب الفقهاء إلى أن للزوج السكنى بزوجته حيث شاء، غير أن الحنفية ينصون على أن تكون السكنى بين جيران.

وقال الفقهاء: وإذا اشتكت الزوجة من إضرار الزوج بها يسكنها الحاكم بين قوم صالحين؛ ليعلموا صحة دعواها

الموسوعة الفقهية الكويتية (30/ 125):

من حق الزوج على زوجته ألا تأذن في بيته لأحد إلا بإذنه، لما ورد عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يحل للمرأة أن تصوم وزوجها شاهد إلا بإذنه، ولا تأذن في بيته إلا بإذنه

محمد سعد ذاكر

دارالافتاء جامعہ الرشید،کراچی

29/محرم الحرام /1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد سعد ذاکر بن ذاکر حسین

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب