دارالافتاء جامعۃ الرشید
’’دارالافتاء ‘‘جامعۃ الرشید کےشعبوں میں سے ایک اہم شعبہ ہے جو لوگوں کو ایمانیات،عبادات،معاشرت،خانگی وکاروباری معاملات اور اخلاقیات سے متعلق شرعی رہنمائی بھر پور انداز میں پیش کررہا ہے۔دارالافتاء جامعۃ الرشید ہمیشہ سے لوگوں کی دلچسپی کا مرکز رہا ہے اور اسے عوام و خواص میں احترام اور اعتماد کا مقام حاصل ہے۔ جدید مواصلات کے اس دور میں یہ ادارہIT کے شعبے میں بھی پیچھے نہیں ہے چنانچہ اب جامعۃ الرشید’’ عمومی فتاویٰ، مالی امور سے متعلق شرعی راہنمائی اور آن لائن تعلیمی کورسزپڑھانے‘‘ کی خدمات کا آغاز کررہا ہے جس میں کسی بھی وقت زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ خدمات کال سینٹر،ای۔میل اور میسیج وغیرہ کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف قرآنی کورسز کی سہولت بھی فراہم کی جارہی ہے۔ مفت فون سروس کے ذریعے بھی مفتیانِ کرام سے تفصیلی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
فتوی اور مفتی کی ضرورت
شرعی احکام کے لیے کسی ماہر مفتی کا فتوی ہی کیوں ضروری ہے؟ کیوں کہ شریعت اللہ تعالی کے نازل کردہ اورپیغمبرِاسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ نظامِ ہدایت کا نام ہے۔اللہ کا یہ نظام قرآن پاک کی صورت میں ایک متن کی حیثیت سے مسلمانوں کے پاس محفوظ ہے۔اس متن کے اصول وضوابط اور عملی طریقہ کار کی وضاحت حدیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے،تاہم زندگی کے مختلف حوادث وواقعات اور مسائل و جزئیات پر اس متن کو اور اس کے اصول کو منطبق کرنے کا کام علماء کا ہے۔اور اس میں بھی خصوصی طور پر یہ کام مفتی کا ہےکہ وہ پیش آمد ہ واقعہ پر شریعت کے حکم کو کیسے منطبق کرے۔اسی طرح جس طرح ایک ملک کا آئین ہوتا ہے،وہ ایک طے شدہ ،لفظ بلفظ محفوظ متن ہوتا ہےمگر اس کی تشریحات اور واقعات (cases) پر اس کی تطبیق قانونی ماہرین کا کام ہے،جب تک قانونی ماہرین تشریح نہ کریں اس وقت تک کسی ملک کے آئین پر درست طور پر عمل کرنا آسان نہیں ہوتااگرچہ آئین میں کوئی سقم نہیں ہوتا،مگر اس کے استعمال میں غلطی کا امکان رہتا ہےاور اس غلطی سے ماہرین اور اس کام کے محققین ہی بچ سکتے ہیں،ہر خاص وعام کو قانون کی تشریح کی اجازت نہیں ہوتی۔مفتی کے فتوی کی ضرورت بھی اسی طرح ہےکہ وہ ایک ماہرِمعاشیات کی حیثیت سے مسائل وواقعات میں شریعت کے احکام کی تطبیق کرتا ہے۔یہ کام عام تعلیم یافتہ فرد یا وہ عالم جو فقہ وفتوی سے اختصاصی تعلق نہیں رکھتا،وہ نہیں کر سکتا، اگر کرے گا تو اس کے فیصلوں میں غلطی کا امکان زیادہ ہوگا۔اس لیے نظامِ شریعت میں فتوی کی ایک بنیادی اہمیت ہے۔