03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اخراجات کے لیے جمع کردہ رقم پر زکوٰۃ کا حکم
85324زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

ہم تین بھائی ہیں! ہمارے یہاں کھانا پینا اور گھر کے اخراجات سب مشترک ہوتے ہیں، اور ہم میں سے ہر ایک صاحبِ نصاب بھی ہے۔ اپنے ذاتی نصاب کی زکوٰۃ تو ہر ایک ادا کرتا ہے، لیکن گھر کے اخراجات کے لیے ہم کچھ پیسے ماہانہ اکٹھے کرتے ہیں، اور زمین و مارکیٹوں کا کرایہ بھی اس میں جمع ہوتا ہے۔ اسی فنڈ سے ایک ذمہ دار بھائی گھر کے اخراجات چلاتا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ

اس مشترکہ فنڈ کا مالک کون تصور ہوگا اور اس کی زکوٰۃ (اگر نصاب تک پہنچتا ہو) تو کون ادا کرے گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر سب بھائی ذمہ دار بھائی کو یہ رقوم بطور ملکیت نہ دیتے ہوں اور صرف اخراجات کے لیے دیتے ہوں تو اس صورت میں اس مشترکہ فنڈ میں ہر بھائی اپنے جمع کردہ حصے کا مالک ہوگا، اور اس پر زکوٰۃ اس تاریخ کے حساب سے واجب ہوگی جو اس کے اپنے ذاتی نصاب کی ہے۔ اگر تمام بھائی اس مشترکہ فنڈ کی زکوٰۃ نکالنے کے لیے مقررہ ذمہ دار بھائی کو وکیل بنا دیں تو وہ مجموعی فنڈ کی زکوٰۃ سب کی طرف سے ادا کر سکتا ہے۔اگر فنڈ میں ہر ایک کی ملکیت کا تعین نہ ہو سکے تو سب کو برابر شریک فرض کر کے مجموعی فنڈ سے اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ نکالی جا سکتی ہے۔

اوراگر سب بھائی بڑے بھائی کو اپنی کمائی ملکیتاً حوالہ کرتے ہوں تو اس صورت میں صرف اس بھائی پر جو گھر کا نگران ہے، اس فنڈ کی زکوٰۃ صرف اپنی طرف سے ادا کرنا فرض ہوگی، جبکہ دیگر بھائیوں پر صرف اپنے ذاتی نصاب کی زکوٰۃ فرض ہوگی۔ 

حوالہ جات

وفی بدائع الصنائع:

قال أصحابنا: إنه يعتبر في حال الشركة ما يعتبر في حال الانفراد وهو كمال النصاب في حق كل واحد منهما فإن كان نصيب كل واحد منهما يبلغ نصابا تجب الزكاة وإلا فلا۔۔۔ روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «ليس في سائمة المرء المسلم إذا كانت أقل من أربعين صدقة» نفى وجوب الزكاة في أقل من أربعين مطلقا عن حال الشركة والانفراد، فدل أن كمال النصاب في حق كل واحد منهما شرط الوجوب.(بدائع الصنائع،كتاب الزكاة،فصل في نصاب الغنم،ج:2،ص:433)

وفی رد المحتار:

قولہ: ”وإن تعدد النصاب“: أي: بحیث یبلغ قبل الضم مال کل واحد بانفرادہ نصابًا فإنہ یجب حینئذ علی کل منہما زکاة نصابہ (رد المحتار، کتاب الزکاة، باب زکاة المال، ۳: ۲۳۶، ط: مکتبہ زکریا دیوبند)

الجوھرۃ النیرۃ: (کتاب الزکوٰۃ، ص: 292)

لیس لکل واحد من الشریکین ان یؤدی زکوٰۃ مال الاخر الا باذنہ.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 325)

مطلب: اجتمعا في دار واحدة واكتسبا ولا يعلم التفاوت فهو بينهما بالسوية [تنبيه] يؤخذ من هذا ما أفتى به في الخيرية في زوج امرأة وابنها اجتمعا في دار واحدة وأخذ كل منهما يكتسب على حدة ويجمعان كسبهما ولا يعلم التفاوت ولا التساوي ولا التمييز.

فأجاب بأنه بينهما سوية، وكذا لو اجتمع إخوة يعملون في تركة أبيهم ونما المال فهو بينهم سوية، ولو اختلفوا في العمل والرأي اهـ وقدمنا أن هذا ليس شركة مفاوضة ما لم يصرحا بلفظها أو بمقتضياتها مع استيفاء شروطها، ثم هذا في غير الابن مع أبيه؛ لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب ثم ذكر خلافا في المرأة مع زوجها إذا اجتمع بعملهما أموال كثيرة، فقيل هي للزوج وتكون المرأة معينة له، إلا إذا كان لها كسب على حدة فهو لها، وقيل بينهما نصفان.

في ’’ صحیح البخاري ‘‘ :

عن أبي موسی قال : قال النبي ﷺ : ’’ إن الأشعریین إذا أرملوا في الغزو ، أو قلّ طعام عیالهم بالمدینۃ جمعوا ما کان عندهم في ثوب واحد ثم اقتسموہ  بینہم في إناء واحد بالسویۃ فهم مني وأنا منہم. (ص/۴۳۷ ، حدیث : ۲۴۸۶)(۳)

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

۴/۵/۱۴۴٦ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب