03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تعیینِ نفع کے بغیر کاروبار اوراس میں نقصان کاحکم
85719شرکت کے مسائلشرکت سے متعلق متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میرا نام قیصر یوسف ہے، میں نے جنید اخلاق کو 29,00,000 روپے دیے تھے، یہ رقم دو حصوں میں 2008 اور 2009 میں دی گئی، رقم کی ادائیگی کی تحریری دستاویز موجود ہے، لیکن اس میں منافع کی شرح یا اس کے ذرائع کے بارے میں کچھ ذکر نہیں تھا۔ اس وقت ان کی دو دکانیں تھیں، اور جب کاروبار چلا تو انہوں نے دکانوں کی تعداد پانچ کرلی۔ میں نے سنا ہے کہ انہوں نے مزید لوگوں سے بھی پیسے لیے اور ان کے پیسے واپس کر دیے۔

2019میں میری ایک بیٹی کی شادی ہوئی اور 2024 میں دوسری بیٹی کی۔ میں نے ان سے لگائی ہوئی رقم میں سے شادی کے کھانے کے لیے دو دو لاکھ روپے کم کروائے کیونکہ ان کا کیٹرنگ کا کام بھی تھا۔ ایک سال پہلے انہوں نے عمرہ اور ٹریولنگ کا کام بھی شروع کر دیا۔

میرے ان کے پاس اب بھی 25 لاکھ روپے موجود ہیں۔ پہلے وہ مجھے مناسب منافع دیتے تھے، لیکن حالیہ دنوں میں منافع بہت کم ہوگیا تھا۔ میں نے ایک سال پہلے انہیں بتایا تھا کہ مجھے اپنی رقم واپس چاہیے تاکہ میں اپنا ادھورا مکان مکمل کر کے اسے کرائے پر دے سکوں، جس سے میرا مہینہ 50 یا 60 ہزار روپے کی آمدنی ہو جائے گی اور گھر کے اخراجات چل سکیں گے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ انہیں وقت چاہیے تاکہ وہ کچھ بیچ کر مجھے پیسے واپس کر سکیں۔

اس دکان سے چھ لوگ حصہ لیتے ہیں: جنید، ان کے والد، ان کے تایا، ان کے بچے اور ان کے داماد۔ یہ سب لوگ اکٹھے رہتے ہیں اور دکان کے کام میں شریک ہیں۔ انہوں نے ایک بلڈنگ بنائی تھی جس کے اوپر فلیٹ اور نیچے دکانیں تھیں۔ ان دکانوں کو بیچنے کے بعد انہوں نے کرائے پر ایک دکان لی، لیکن جب انہوں نے یہ سب بیچا تو میرے پیسے واپس نہیں کیے۔میں نے بار بار اپنے پیسوں کا تقاضہ کیا، کیونکہ مہینے کی ادائیگی کم ہو گئی تھی اور وہ بھی دو یا تین مہینے کے وقفے کے ساتھ ملتی تھی، وہ بھی قسطوں میں۔ ان کے کاروبار کو 50 سال ہو چکے ہیں، جو ان کے آبا و اجداد سے چلا آرہا ہے۔

میں نے تفصیل سے یہ بات اس لیے بیان کی ہے کہ یہ واضح ہو سکے کہ ان کے پورے خاندان کو پیسے مل رہے ہیں۔ دکان کا کرایہ اور کاریگروں کی تنخواہ بھی دی جا رہی ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ کاروبار میں نقصان ہو رہا ہے، اور یہ نقصان گزشتہ ایک سال سے ہو رہا ہے۔

اگر نقصان واقعی ایک سال سے ہو رہا ہے، تو انہوں نے مجھے پہلے ہی پیسے واپس کیوں نہیں کیے یا روک کیوں نہیں دیے؟ اس وقت انہوں نے نقصان کا ذکر نہیں کیا۔ سب لوگ اپنا حصہ لے رہے ہیں، لیکن نقصان کا اثر صرف مجھ پر پڑ رہا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

نفع کا تناسب طے نہ کرنے کی وجہ سے مذکورہ معاملہ شرکتِ فاسدہ کا ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ شروع سے عقد ختم کرنے تک جتنا نفع ہوا ہے، وہ دونوں فریقوں میں ان کے سرمایہ کے تناسب سے تقسیم کیا جائے گا۔ اور پہلی مرتبہ جب آپ نے پیسوں کا مطالبہ کیا، تو اس وقت جو نفع و نقصان ہوا تھا، اس کا حساب کیا جائے گا۔ اس کے بعد، چونکہ عقد ختم ہو چکا تھا، اس لئےاس کے بعد کے نقصان کا اعتبار نہیں ہوگا۔

اور اگر جنید اخلاق اس سے پہلے نقصان ہونے کا مدعی ہے، تو اگر اس کا معتبر ثبوت موجود ہو تو فریقین پر سرمایہ کے حساب سے اس نقصان کو تقسیم کرنا ضروری ہے، اور نقصان سے انکار کرنا صحیح نہیں ہوگا۔ اور اگر اس نقصان پر کوئی معتبر ثبوت نہیں ہے، تو پھر انکار کرنا درست ہے۔

حوالہ جات

وفی تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي:

وشرطها أن يكون رأس المال من الأثمان وهو معلوم والربح بينهما شائعا ونصيب كل منهما معلوما وأن يكون معينا مسلما إليه فإن فقد شيء من هذه الأشياء فسدت. (5/ 53 المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی:

ومنها : أن يكون الربح معلوم القدر، فإن كان مجهولا تفسد الشركة؛ لأن الربح هو المعقود عليه، وجهالته توجب فساد العقد ،كما في البيع والإجارة. ومنها: أن يكون الربح جزءا شائعا في الجملة، لا معينا، فإن عينا عشرة، أو مائة، أو نحو ذلك كانت الشركة فاسدة؛ لأن العقد يقتضي تحقق الشركة في الربح، والتعيين يقطع الشركة ؛لجواز أن لا يحصل من الربح إلا القدر المعين لأحدهما، فلا يتحقق الشركة في الربح.(بدائع الصنائع:6/58)

قال العلامة المرغيناني رحمه اللہ تعالي:

وكل شركة فاسدة، فالربح فيهما على قدر المال، ويبطل شرط التفاضل؛لأن الربح فيه تابع للمال فيتقدر بقدره، كما أن الريع تابع للبذر في الزراعة، والزيادة إنما تستحق بالتسمية، وقد فسدت،فبقي الاستحقاق على قدر رأس المال. (الھداية:3/13)

قال العلامۃ الحصکفی رحمہ اللہ تعالی:

(والربح في الشركة الفاسدة بقدر المال، ولا عبرة بشرط الفضل) فلو كل المال لأحدهما فللآخر أجر مثله ،كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها، والأجر بينهما، فالشركة فاسدة ،والربح للمالك ،وللآخر أجر مثله، وكذلك السفينة والبيت.

 قا ل العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ تعالی:

قوله:( والربح إلخ): حاصله أن الشركة الفاسدة إما بدون مال أو به من الجانبين أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجرا؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في قفيز الطحان ،والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله قوله:(فالشركة فاسدة): لأنه في معنى بع منافع دابتي ليكون الأجر بيننا، فيكون كله لصاحب الدابة؛ لأن العاقد عقد العقد على ملك صاحبه بأمره، وللعاقد أجرة مثله؛ لأنه لم يرض أن يعمل مجانا، فتح. (الدر المختار مع رد المحتار:4/326)

وفی المعاییر الشرعیة، معیار المضاربة (374۔373):

(3/1/5/10)  لایجوز توزیع الأرباح بشکل نهائی علی أساس الربح المتوقع، بل علی أساس الربح المتحقق حسب التنضیض الحقیقی أوالحکمی...... مستند جواز توزیع مبالغ تحت الحساب قبل التنضیض علی أن تتم التسویة لاحقاً مع الالتزام برد الزیادة: أنه لا ضرر فی ذلك علی أحد الشرکاء ما دام هذا المبلغ قابلاً للتسویة.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 370)

المادة (1353) - (تنفسخ الشركة بفسخ أحد الشريكين، ولكن يشترط أن يعلم الآخر بفسخه، ولا تنفسخ الشركة ما لم يعلم الآخر بفسخ الشريك)

وفی فتح القدیر :

"الربح على ما شرطا، والوضيعة على قدر المالين."(کتاب الشرکۃ ،177/6،ط:مکتبہ مصطفیٰ البابی مصر)

وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( لو يُعطى الناس بدعواهم ، لادّعى رجالٌ أموال قوم ودماءهم ، لكن البيّنة على المدّعي واليمين على من أنكرحديث حسن رواه البيهقي وغيره )

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

4/6/1446ھ
 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب