| 88900 | قربانی کا بیان | غیرکی طر ف سے قربانی کرنے کے مسائل |
سوال
میرا سوال یہ ہے کہ میری قربانی میرے سسرال والوں کے ساتھ ہو رہی ہے اب میں نے کئی دفعہ بیان سنا کہ جو شرک کریں اس کے ساتھ قربانی میں حصہ ڈالنے سے قربانی نہیں ہوتی ہم گھر والوں کی قربانی سب میرے سسر کرتے ہیں ۔میرے سسر نے کبھی شرکیہ کلمات نہیں کہے صرف عورتیں کہتی رہتی ہیں ، ان لوگوں کو پتہ ہے کہ میں یہ چیزیں نہیں پڑھتی اسی لیے وہ مجھ پر زبردستی نہیں کرتے ۔ابھی پھر میں نے قربانی کے حوالے سے بیان سنا ہے تو میری اس بارے میں رہنمائی کر یں ۔مجھ پر قربانی واجب ہے ،میرے شوہر کہتے ہیں مجھے اجازت دے دو لیکن ہمارے گھر میں قربانی جو ہے وہ میرے سسر کرتے ہیں ان کے پیسوں سے ہوتی ہے وہ کہتا ہے بس تم مجھے اجازت دے دو میں آگے دے دوں گا مجھے اتنے عرصے سے نہیں پتہ تھا ،کہ اگر کوئی ہمارے حصے کی قربانی کرے تو اس کو اجازت لینا ضروری ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں گھر کے مرد ہی دیتے ہیں اور ہمیں پتہ ہوتا ہے ۔
تنقیح : سائل سے زبانی رابطہ کرنے سے معلوم ہوا کہ اس کے سسر کے عقائد درست ہیں ۔ تاہم یہ پوچھنا ہے کہ میرے سسرال والےمیری اجازت کے بغیر میرے حصہ کی قربانی اپنے پیسوں سے کرتے ہیں ،اجازت نہیں لیتے تو کیا ایسا کرنے سے میری طرف سے قربانی ہوجائے گی ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسٔولہ میں آپ کا سسر آپ کی طرف سے قربانی کرسکتاہے ،کیونکہ قربانی مالی عبادات میں سے ہے،اور مالی عبادات میں نیابت درست ہے ، تاہم آپ کی قربانی کی نیت ضروری ہے جس کے لیےآپ سے اجازت لینا ضروری ہے ۔یاد رہےکہ یہ اجازت صراحۃً بھی لی جاسکتی ہے اور دلالۃبھی، جیسا کہ آپ کے سامنے بات آئی اور آپ نے انکار نہیں کیا تویہ دلالۃًاجازت ہے ۔عام طور پر گھروں میں اسے ہی اجازت سمجھا جاتا ہے ۔لہذا آپ کے علم میں تھا تو تمام قربانیاں درست ہوگئیں ۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع: (6/291
ومنها : أنه تجزىء فيها النيابة فيجوز للإنسان أن يضحي بنفسه، وبغيره بإذنه؛ لأنها قربة تتعلق بالمال، فتجزىء فيها النيابة كأداء الزكاة وصدقة الفطر؛ ولأن كل أحد لا يقدر على مباشرة الذبح بنفسه خصوصاً النساء، فلو لم تجز الاستنابة لأدى إلى الحرج، وسواء كان المأذون مسلماً أو كتابيا، حتى لو أمر مسلم كتابيا أن يذبح أضحيته يجزيه؛ لأن الكتابي من أهل الذكاة، إلا أنه يكره؛ لأن التضحية قربة، والكافرليس من أهل القربة لنفسه، فتركه إنابته في إقامة القربة لغيره سواءً كان الإذن نصاأودلالةً.
(بدائع الصنائع:(6/305
أما الذي يرجع إلى من عليه التضحية فمنها نية الأضحية لا تجزي الأضحية بدونها؛ لأن الذبح قد يكون للحم وقد يكون للقربة والفعل لا يقع قربة بدون النية؛ قال النبي عليه الصلاة والسلام «لا عمل لمن لا نية له» والمراد منه عمل هو قربة؛ وللقربة جهات من المتعة والقران والإحصار وجزاء الصيد وكفارة الحلق وغيره من المحظورات فلا تتعين الأضحية إلا بالنية؛ وقال النبي عليه الصلاة والسلام «إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى» ويكفيه أن ينوي بقلبه ولا يشترط أن يقول بلسانه ما نوى بقلبه كما في الصلاة؛ لأن النية عمل القلب، والذكر باللسان دليل عليها..
(ومنها) إذن صاحب الأضحية بالذبح إما نصا أو دلالة إذا كان الذابح غيره، فإن لم يوجد لا يجوز؛ لأن الأصل فيما يعمله الإنسان أن يقع للعامل، وإنما يقع لغيره بإذنه وأمره فإذا لم يوجد لا يقع له.
حنبل اکرم
دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی
/10جمادی الاولی /1447ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | حنبل اکرم بن محمد اکرم | مفتیان | شہبازعلی صاحب / فیصل احمد صاحب |


