| 89333 | نماز کا بیان | سجدہ سہو کابیان |
سوال
ایک شخص کو نماز میں اکثر سجدوں کی تعداد میں شک ہوتا ہے کہ ایک سجدہ کیا ہے یا دو ۔اور وہ غالب گمان پر عمل کر لیتا ہے ۔ اب پہلے غالب گمان پر عمل کرتے ہوئے اس کو لگا کہ دو سجدے ہو گئے ہیں ،لیکن نماز کے آخر میں دوبارہ شک ہونے لگا کہ ایک سجدہ کیا یا دو ۔اور اس نے خوب غالب گمان پر عمل کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی فیصلہ نہ کر سکا ۔ تو ایک سجدہ اضافی کر کے سجدہ سہو کر لیا ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اس کی نماز ہو جائے گی یا دہرانی پڑے گی؟کہیں جان بوجھ کر اضافی سجدہ کرنے میں شمار تو نہیں ہوگا؟ کیونکہ اسے شک تھا اور دوسری دفعہ غالب گمان نہیں تھا۔ لیکن اس نے پہلے والے پر عمل نہیں کیا تو شک کو دور کرنے کی وجہ سے یہ اضافی سجدہ نماز کو ضائع کر دے گا یا نماز ہو جائے گی ؟ برائے کرم رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں سائل کی نماز درست ہوگئی ہے، نماز کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس نے شک کو دور کرنے کے لیے اضافی سجدہ کیا، جس کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم ہوا۔ چنانچہ نماز کے آخر میں سجدہ سہو کر کے وہ بری الذمہ ہوگیا ہے۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية: (ج:1،ص:141،ط:العلمية)
"وكذا إذا سجد في موضع الركوع أو ركع في موضع السجود أو كرر ركنا أو قدم الركن أو أخره، ففي هذه الفصول كلها يجب سجود السهو."
البحرالرائق:(ج:2،ص:105،ط: دارالكتاب الإسلامي)
"لو ركع ركوعين أو سجد ثلاثا في ركعة، لزمه السجود لتأخير الفرض، وهو السجود في الأول والقيام في الثاني."
بدائع الصنائع: (ج:1،ص:692،ط:العلمیة)
"وكذا إذا ركع في موضع السجود، أو سجد في موضع الركوع، أو ركع ركوعين ،أو سجد ثلاث سجدات، لوجود تغيير الفرض عن محله، أو تأخير الواجب ، و كذا إذا ترك سجدة من ركعة فتذكرها في آخر الصلاة سجدها ،و سجد للسهو ؛ لأنه أخرها عن محلها الأصلي."
سید سمیع اللہ شاہ سید جلیل شاہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
18/ جمادی الاخری/1447ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید سمیع اللہ شاہ بن سید جلیل شاہ | مفتیان | شہبازعلی صاحب / فیصل احمد صاحب |


