| 89243 | وقف کے مسائل | مسجد کے احکام و مسائل |
سوال
سوال یہ ہے کہ وقف کی زمین پر مسجد کمیٹی حضرات نے اضافی زمین پرمسجد کے فنڈ سے تعمیر کروائی اوربعدمیں ان فلیٹوں کو فروخت کردیا ۔خریداران فلیٹوں کےعوض ہر مہینے کچھ رقم کرایہ کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ اب پوچھنایہ ہےکیا یہ معاملہ جائز ہے ؟کیاخریدار کوحقیقی ملکیت حاصل ہوئی یا نہیں ؟کیاخریدارکےلیےان فلیٹوں کو بیچنا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں تو پھرپہلےخریدارسےلےکرآخری خریدار تک جو خریدوفروخت ہوتی رہی؟ یعنی زید پہلا خریدار ہے ایک لاکھ قیمت میں خریدااس نے بکر پر دو لاکھ میں فروخت کیا اور بکر نے خالد پر دس لاکھ میں فروخت کیا اب فلیٹ خالد کے قبضہ میں ہے مسجد کے کمیٹی حضرات کے ساتھ خالد معاملہ کو کس طرح صاف کیا جائے رہنمائی فرمائیں۔ تنقیح:سائل نے رابطہ کرکےبتایاکہ زمین کو مسجد کے نا م پر وقف کیاتھا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مسجد کےلیےوقف شدہ زمین بیچناجائزنہیں ،اور نہ ہی خریدار کو اس کی ملیکت حاصل ہوتی ہے۔کیونکہ جب زمین مسجد کےلیے وقف کردی جاتی ہے تو وہ واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے۔البتہ ایسےفلیٹوں کو مسجد کے مصالح کے تحت کرایہ پر دینا جائزہے۔چونکہ ابتدا ہی سےیہ بیع صحیح نہیں تھی ،اس لیےاسے آگے بیچنا بھی جائز نہیں۔ لہذاایک کے بعد دوسرے،تیسرے اورجتنے خریدوفروخت کے معاملات ہوئے ہیں ،انہیں اس طرح ختم کریں کہ خالد ،بکرسے پیسے وصول کر کےفلیٹ واپس کرے ،اور بکر، زیدسے پیسے وصول کرے، اسی طرح یہ سلسلہ آخرتک چلتاجائے۔ اگر یہ لوگ معاملہ ختم کرنے پر راضی نہ ہوں تو عدالت کویہ اختیار ہے کہ وہ انہیں معاملہ ختم کرنے پر مجبور کرے۔
صورت مسئولہ اگرحقیقت پر مبنی ہےتو متولی یا کمیٹی کے حضرات وقف کے معاملے میں سنگین کوتاہی کے مرتکب ہیں۔اس سارے معاملےکو درست کرواکروقف کافلیٹ واپس لیناان کی شرعی ذمہ داری ہے۔اگروہ سنجیدگی کامظاہرہ نہ کریں تووہ وقف کی نگرانی کےاہل نہیں ہیں ۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين :(4/ 351)
(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن) فبطل شرط واقف الكتب، الرهن شرط كما في التدبير.
حاشية ابن عابدين :(4/ 340)
(وشرطه شرط سائر التبرعات) كحرية وتكليف (وأن يكون) قربة في ذاته معلوما (منجزا) لا معلقا إلا بكائن، ولا مضافا، ولا موقتا ولا بخيار شرط، ولا ذكر معه اشتراط بيعه وصرف ثمنه، فإن ذكره بطل وقفه بزازية.
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية: (2/ 419)
ولا تجوز إجارة الوقف إلا بأجر المثل كذا في محيط السرخسي استأجر حانوت وقف بأجر مثل فجاء آخر وزاد الأجرة لم تفسخ الأولى كذا في السراجية وإذا استأجر أرض وقف ثلاث سنين بأجرة معلومة هي أجر المثل حتى جازت الإجارة فرخصت أجرتها لا تفسخ الإجارة، كذا في المحيط.
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي:(4/ 380)
(قوله: غير مأمون إلخ) قال في الإسعاف: ولا يولى إلا أمين قادر بنفسه أو بنائبه لأن الولاية مقيدة بشرط النظر وليس من النظر تولية الخائن لأنه يخل بالمقصود، وكذا تولية العاجز لأن المقصود لا يحصل به، ...والظاهر: أنها شرائط الأولوية لا شرائط الصحة وأن الناظر إذا فسق استحق العزل ولا ينعزل كالقاضي إذا فسق لا ينعزل على الصحيح المفتى به.
الهداية في شرح بداية المبتدي: (3/ 42)
والباطل لا يفيد ملك التصرف، ولو هلك المبيع في يد المشتري فيه يكون أمانة عند بعض المشايخ لأن العقد غير معتبر فبقي القبض بإذن المالك وعند البعض يكون مضمونا لأنه لا يكون أدنى حالا من المقبوض على سوم الشراء. وقيل الأول قول أبي حنيفة رحمه الله والثاني قولهما كما في بيع أم الولد والمدبر على ما نبينه إن شاء الله تعالى.
فتح القدير للكمال بن الهمام - ط الحلبي: (6/ 240)
ومن سكن دار الوقف غصبا أو بإذن المتولي بلا أجرة كان على أجرة مثله سواء كان ذلك معدا للاستغلال أو غير معد له، حتى لو باع المتولي دارا للوقف فسكنها المشتري ثم رفع إلى قاض هذا الأمر فأبطل البيع وظهر الاستحقاق للوقف كان على المشتري أجرة مثله.
رشيدخان
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
18/جمادی الآخرۃ1447ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | رشید خان بن جلات خان | مفتیان | شہبازعلی صاحب / فیصل احمد صاحب |


