03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یکطرفہ عدالتی خلع کا حکم
89241طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

   میری اہلیہ سحر جاوید جس سے میری شادی مورخہ 11 اپریل 2021 کو بذریعہ فون میرےایک دوست کو وکیل بناکر تمام گواہان کی موجودگی میں ہوئی، اس وقت میں سعودیہ عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم تھا اور رخصتی 16 دسمبر 2022 کو ہوئی۔ میری اہلیہ نے گھریلو نا چاقی کی  باعث 18 ستمبر 2025  کو عدالت سے خلع لے لی ، جس میں میری مرضی شامل نہیں تھی ۔میری بیوی  پہلے سے طلاق یافتہ تھی اور ایک بچے کی ماں بھی تھی، جبکہ یہ میری پہلی شادی تھی۔ میں نے رخصتی سے پہلے اور بعد میں تمام شرعی ذمےداریاں نبھائیں ،جیساکہ نان ونفقہ اور اس کے بچے کے تمام اخراجات ،جن کی باقاعدہ شہادت موجودہے۔میں نے سعودیہ عرب سے اس کے اکاؤنٹ میں  کم از کم دس لاکھ پاکستانی روپے بھجوائے اور اس کے علاوہ ساتھ رہتے ہوئے کپڑے، جوتے اورگھر کاخرچ سب کچھ مہیاکیا۔مزید یہ کہ وہ بار بارمعمولی باتوں پر مجھ سےطلاق کا  مطالبہ کرتی تھی۔چنانچہ اس وجہ سے میرے ماموں کے مشورےسےیہ طے ہواکہ میں اسےپانچ لاکھ پچاس ہزار روپےاس شرط پر دوں کہ وہ دوبارہ  بےجاطلاق کا مطالبہ نہیں کرےگی۔اس رقم کی ادائیگی کےگواہ بھی موجودہے اور بینک کی ٹرانزیکشن بھی موجودہیں۔  اس کےباوجوداس نے عدالت سے خلع لےلی۔ میرا دیا گیا پانچ تولہ سونا نہیں دے رہی  کہتی ہےکہ  یہ عورت کا حق ہے جبکہ  حق مہر میں پانچ ہزار کے علاوہ کچھ نہیں  لکھا گیا تھا ۔آپ علماء سے میری گزارش ہے کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں مجھے بتایا جائے کہ کیاعدالت کو میری رضامندی کےبغیر خلع کا اختیار حاصل ہے ؟کیا میرا دیاگیاپانچ تولہ سونا عورت کا شرعی حق ہے یا وہ واجب الاداءنہیں ؟ میں نے جو پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے اس شرط پر دیے تھے کہ وہ طلاق کا مطالبہ نہیں کرے گی، کیا اب بھی وہ اس رقم کو اپنے پاس رکھنے کا حق رکھتی ہے؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ بیوی نے عدالت میں یہ دعویٰ کرکے خلع کا مقدمہ دائر کیا تھا کہ میرا شوہر مجھے مارتا ہے، جبکہ میں ہر قسم کی قسم کھانے کے لیے تیار ہوں کہ میں نے آج تک اسے نہیں مارا۔ البتہ کسی غلط کام پر سختی کے ساتھ بات ضرور کی ہے، لیکن کبھی  اس  پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔مزیدیہ  بتایا کہ جو پانچ تولہ سونا دیا تھا وہ مہر نہیں تھا، بلکہ نکاح کے وقت مہر پانچ ہزار روپے مقرر ہوا تھا۔ ہمارے عرف میں شوہر یا ساس اپنی بیوی یا بہو کو سونا دیتے ہیں، اور اگر کسی وقت شوہر یا ساس اس کا مطالبہ کریں کہ مجھے کام کے لیے یہ سونا چاہیے تو وہ واپس بھی لے سکتے ہیں۔نیز شوہر نےیہ بھی بتایا کہ کیس کے دوران میں سعودی میں تھا  اس لیےخود حاضر نہیں ہواوکیل عدالت میں پیش ہوا لیکن عدالت نے جو فیصلہ کیا اس میں میری بالکل رضامندی نہیں تھی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سائل کا بیان اگر حقیقت پر مبنی ہےتو   شرعایہ خلع  معتبر نہیں ہے، سابقہ نکاح برقرار ہے۔کیونکہ خلع دیگر معاملات کی طرح  ایک معاملہ ہے لہذا دیگرمعاملات کی طرح اس میں  بھی فریقین کی رضا مندی ضروری  ہے، جب تک دوسرا فریق راضی نہ ہوں صرف ایک فریق  کے مطالبہ پر خلع شرعا واقع نہیں ہوتی ۔

          البتہ فسخ نکاح کی شرائط میں سے اگر کوئی شرط پائی جائے ،اور عورت  قاضی کے سامنے گواہوں کے ذریعے اس کو ثابت کرے ،تو قاضی کو   فسخِ نکاح کا اختیار  حاصل ہوتا ہے۔پھر قاضی اگر فسخ نکاح کا فیصلہ کرلے تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے۔لہذا عورت اگر  پہلے شوہر  کے پاس  فسخ نکاح کے بعد رہنا پسند کرتی ہو،تو نکاح جدید کے بعد رہ سکتی ہے۔

فسخ نکاح کی چھ شرائط ہیں  جو احسن الفتای جلد نمبر ۵صفحہ نمبر۳۸۴  میں ذکر ہیں:

(۱)عنین: جبکہ شوہر نکاح سے پہلےہی مکمل نامرد ہو،جماع پر ایک بار بھی قدرت نہ ہوئی ہو،اور بیوی کو بوقت نکاح اس کا علم نہ ہو،اور علم ہونے کے بعد اس کے ساتھ رہنےپر رضا کا کبھی اظہار نہ کیا ہو۔

(۲)متعنت:وہ شخص  جو بیوی  کو نہ نفقہ  دیتا ہواورنہ ہی طلاق پر راضی ہو،حاکم کے  کہنے پر بھی دونوں صورتوں میں سے کوئی قبول نہ کرے۔

(۳)غائب:وہ شخص جو نہ نفقہ دیتا ہو نہ طلاق اور نہ ہی  عدالت میں جواب دہی کے لیے حاضر ہو۔

(۴)معسر:جو تنگدستی کی وجہ سے نفقہ پر  قادر نہ ہو اور طلاق بھی نہ دے۔

(۵)مفقود :ایسا لاپتہ کہ انتہائی تلاش اور تمام ترذرائع جستجو استعمال کرنے کے باوجود بھی اس کا کوئی سراغ نہ لگ سکا ہو۔

(۶)مجنون : جبکہ وہ نفقہ پر قادر نہ ہو، یا اس سے قتل کا خوف ہو،یا اس کے ساتھ رہنا نا قابل برداشت ہو۔

ان  مذکورہ صورتوں میں قاضی کو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔

 اگر شوہر نے بیوی کو زیورات دیتے وقت ملکیت کی صراحت کی ہو، تو ایسے زیورات بیوی کی ملکیت میں شمار ہوتےہیں  اور شوہر کو ان کے مطالبہ کا کوئی حق حاصل نہیں۔اور اگر شوہر نے زیورات عاریت (صرف استعمال ) کی نیت سے دیے ہوں تو شوہر کو زیورات  واپس لینے کا حق حاصل ہوگا۔اگر شوہر نے زیورات دیتے وقت کوئی صراحت نہ کی ہو تو پھر شوہر کے خاندان میں رائج عرف کا اعتبار ہوگا۔اگر عرف میں بیوی کو زیورات ملکیت کے طور پر دینا معمول ہو تو شوہر کو مطالبہ کا حق نہیں ہوگا۔اور اگر عرف میں زیورات عاریت کے طور پر دینا معروف ہو تو شوہر کو ان کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا حق ہوگا۔                                                                                                                                              

سوال میں ذکر کردہ صورت اگر حقیقت پرمبنی ہے کہ شوہرنےبیوی کو پانچ لاکھ پچاس ہزار اس شرط پر دیے کہ وہ آئندہ بےجا طلاق کا مطالبہ نہیں کرےگی تو چونکہ بیوی طلاق نہ لینے کی شرط پر قائم نہیں رہی ،اس لیےشوہرکو  پانچ لاکھ پچاس ہزارروپے کےمطالبہ کا حق حاصل ہے۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع: (3/ 145)

‌وأما ‌ركنه ‌فهو ‌الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول.

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (3/ 449)

قال الزيلعي: ولا بد من قبولها لأنه عقد معاوضة، أو تعليق بشرط، فلا تنعقد المعاوضة بدون القبول ولا ينزل المعلق بدون الشرط إذ ‌لا ‌ولاية ‌لأحدهما ‌في ‌إلزام ‌صاحبه ‌بدون رضاه، والطلاق بائن لأنها ما التزمت المال إلا لتسلم لها نفسها وذلك بالبينونة.

           الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية: (1/ 327)

وإذا ‌بعث ‌الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية.

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي: (3/ 157)

‌والمعتمد ‌البناء على العرف كما علمت.

[الإسراء: 34]

قَالَ الله تَعَالَى: {وَأوْفُوا بِالعَهْدِ ‌إنَّ ‌العَهْدَ ‌كَانَ مَسْئُولًا}

  صحيح البخاري: (3/ 92)

وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‌الْمُسْلِمُونَ ‌عِنْدَ ‌شُرُوطِهِمْ.

 سنن أبي داود: (2/ 235 ط مع عون المعبود)

عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «‌أَيُّمَا ‌امْرَأَةٍ ‌سَأَلَتْ زَوْجَهَاطَلَاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ.

رشیدخان

  دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

   18/جمادی الآخر 1447ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

رشید خان بن جلات خان

مفتیان

شہبازعلی صاحب / فیصل احمد صاحب