| 89236 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
ایک دن میں ڈرامہ دیکھ رہی تھی ،میرے شوہر کمرے میں داخل ہوے،ڈرامے سے آواز آئی کوئی طلاق کا سین تھا ،میرے شوہر نے اس کو دہرایا کہ طلاق طلاق طلاق یہ کیا دیکھ رہی ہو ،میرا شوہر کے ساتھ بہت محبت ہے کوئی لڑائی نہیں ،اس بات کو تقر یبا ایک سال ہو گیا ہے، لیکن میر ے شو ہر نے کہا کہ میری ایسی نیت نہیں تھی لیکن میرا دل پریشان رہتا ہے،میں خود عالیہ اول کی طالب علم ہوں ،پلیز مدد کریں کچھ غلط تو نہیں ہو گیا ہم دونوں میں سے کسی کی کوئی ایسی نیت نہیں تھی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر کوئی شخص الفاظِ طلاق کسی دوسرے کی زبان سے سنے، اور بغیر نیتِ طلاق کے صرف حکایت کے طور پر اُن الفاظ کو دہرا دے، جبکہ ماحول اور سیاق بھی طلاق کے واقع ہونے کا نہ ہو، تو محض حکایتاً الفاظ دہرانے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
لہٰذا مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر کی اپنی بیوی کو طلاق دینے کی کوئی نیت نہ تھی اور اُس نے ڈرامہ میں ادا کیے گئے الفاظِ طلاق کو محض نقل و حکایت کے طور پر دہرایا تھا، اس لیے شرعاً اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔تا ہم طلاق کا معاملہ حساس ہے ،آئندہ طلاق کا لفظ غیر محتاط انداز میں زبان پر لانے سے گریز کیاجائے۔
حوالہ جات
وفي الفتاوى الهندية:(1/388):حكى يمين رجل فلما بلغ إلى ذكر الطلاق خطر بباله امراته إن نوى عند ذكر الطلاق عدم الحكاية واستئناف الطلاق وكان موصولاً بحيث يصلح للإيقاع على امراته يقع لأنه أوقع. وإن لم ينو شيئًا لا يقع؛لأنه محمول على الحكاية كذا في الفتاوى الكبرى.
وفي المحيط البرهاني (5/247)الفصل السابع والعشرون في المتفرقات :وذكر في "فتاوى أهل السمرقند": في رجل حكى يمين رجل، فلما بلغ إلى ذكر الطلاق خطر بباله امرأته إن نوى عند ذكر الطلاق عدم الحكاية واستئناف كلام طلاق، وكان الكلام موصولاً بحيث يصلح للإيقاع على امرأته،طلّقت امرأته، وإن لم ينو ذلك لا تطلّق امرأته، وهو محمول على الحكاية.وحكي عن القاضي الإمام شمس الإسلام محمود الأوزجندي في رجل يذكر مسائل الطلاق بين يدي امرأته ويقول: أنت طالق، وهو لا ينوي بذلك طلاق امرأته لا تطلق امرأته.
احسان اللہ گل محمد
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
18/6/7144ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | احسان ولد گل محمد | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |


