| 89360 | نماز کا بیان | امامت اور جماعت کے احکام |
سوال
اگر کسی بندے کو نماز میں سجدوں کی تعداد کے بارے میں اکثر شکوک و شبہات ا ٓتے ہوں تو اسے غالب گمان پر عمل کرنا چاہیے۔ اور اگر وہ امامت کروا رہا ہو اور اسے سجدوں کی تعداد میں شک ہو کہ ایک ہوا ہے یا دو، اور وہ دو سمجھ کر نماز کو جاری رکھے، جبکہ مقتدی بھی اسے لقمہ نہ دے، تو وہ یہ سمجھ کر کہ مقتدی نے لقمہ نہیں دیا، دو ہی سجدے شمار کرے اور نماز ادا کرے۔تو کیا ایسی صورت میں نماز ادا ہو جائے گی، کیونکہ اسے یقین نہیں ہے کہ دو ہی ہوئے ہیں اور وہ مقتدی کے لقمے کو بنیاد بنا رہا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
نماز میں اگر امام کو شک ہو جائے، اور امام مقتدی کے لقمے کو بنیاد بنا رہا ہو تو اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،نماز درست ہوگی۔
تاہم اگر کسی شخص کو نماز کے دوران رکعات کی تعدا د میں شک ہوجائے اور اس کو یاد نہ ہو کہ اس نے چار رکعت پڑھی ہیں یا تین ؟ تو اس کا حکم یہ ہے کہ:
-1اگر اسے بھولنے کی عادت نہ ہوبلکہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے تو اسے نئے سرے سے نماز پڑھنا چاہیے۔
-2 اگر شک ہوتا رہتا ہے اور رکعتوں کی تعداد بھولتا رہتا ہے تو پھر غالب گمان پر عمل کرنا چاہیے، یعنی جتنی رکعتیں غالب گمان سے اس کو یاد پڑیں، اسی قدر رکعتوں کے بارے میں یہ خیال کرے کہ پڑھ چکا ہے، اگر اس حساب سے تین ہوچکی ہیں تو مزید ایک رکعت پڑھ کر نماز مکمل کرے ، اور اگر اس کے حساب سے چار رکعت ہوچکی ہیں تو نماز مکمل کرلے۔
-3اور اگر غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو کمی کی جانب اختیار کرے مثلاً کسی کو تین یا چار رکعت میں شک ہوجائے اور یہ شک پہلی مرتبہ نہ ہوا ہو اور غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ تین رکعتیں شمار کرے اور ایک رکعت مزید پڑھ کر نماز پوری کرے ۔
نوٹ:دوسری اور تیسری صورت میں اگر نماز میں شک کی وجہ سےاس نے سوچنا شروع کردیا اور ارکان کی ادائیگی میں اتنی تاخیر ہوگئی جو کہ تین بار سبحان ربی الاعلی کے بقدر ہو تو پھر سجدہ سہو کر کے نماز مکمل کرے۔اگر اس قدر تاخیر نہیں ہوئی تو سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔
حوالہ جات
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (1/ 131):
وإذا شك في صلاته فلم يدر أثلاثا صلى أم أربعا وتفكر في ذلك كثيرا ثم استيقن أنه صلى ثلاث ركعات فإن لم يكن تفكره شغل عن أداء ركن بأن يصلي ويتفكر فليس عليه سجود السهو وإن طال تفكره حتى شغله عن ركعة أو سجدة أو يكون في ركوع أو سجود فيطول تفكره في ذلك وتغير عن حاله بالتفكر فعليه سجود السهو استحسانا، هكذا في المحيط... ثم اختلف المشايخ في معنى قوله أول ما عرض له قال بعضهم: إن السهو ليس بعادة له لا أنه لم يسه في عمره قط وقال بعضهم: معناه أنه أول سهو وقع له في تلك الصلاة والأول أشبه، كذا في المحيط.
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (1/ 131):
رجل صلى بقوم فلما صلى ركعتين وسجد السجدة الثانية شك أنه صلى ركعة أو ركعتين أو شك في الرابعة والثالثة فلحظ إلى من خلفه ليعلم بهم إن قاموا قام هو معهم وإن قعدوا قعد يعتمد بذلك فلا بأس به ولا سهو عليه، كذا في المحيط.
المحيط البرهاني (1/ 528):
رجل صلى بقوم، فلما صلى ركعتين وسجد السجدة الثانية شك أنه صلى ركعتين أو ركعة، أو شك في الرابعة والثالثة فلحظ إلى من خلفه ليعلم بهم إن قاموا قام هو معهم وإن قعدوا قعد تعمد بذلك، فلا بأس به ولا سهو عليه والله أعلم. قال محمد رحمه الله: ولو كنت أنا لأعدته بقول الواحد تنزهاً وليس يرجع إلى الحكم؛ لأن الصلاة صحت ظاهراً، أو إبطال ما صح ظاهراً بقول الواحد لم يرد الشرع به والله أعلم.
الهداية في شرح بداية المبتدي (1/ 76):
ومن شك في صلاته فلم يدر أثلاثا صلى أم أربعا وذلك أول ما عرض له استأنف " لقوله عليه الصلاة والسلام " إذا شك أحدكم في صلاته أنه كم صلى فليستقبل الصلاة " " وإن كان يعرض له كثيرا بنى على أكبر رأيه " لقوله عليه الصلاة والسلام " من شك في صلاته فليتحر الصواب " " وإن لم يكن له رأي بنى على اليقين " لقوله عليه الصلاة والسلام " من شك في صلاته فلم يدر أثلاثا صلى أم أربعا بنى على الأقل ".
ابن امین صاحب دین
دارالافتاءجامعۃالرشیدکراچی
22/جمادی الآخرۃ 1447ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | ابن امین بن صاحب دین | مفتیان | شہبازعلی صاحب / فیصل احمد صاحب |


