| 89362 | طلاق کے احکام | خلع اور اس کے احکام |
سوال
(1خلع دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے(2 کیا نافرمان بیوی خلع کے بعد عدّت کے خرچے کی حقدار ہے؟(3خلع کی صورت میں عدّت ایک حیض ہے یا تین حیض؟4) کیاشوہر کا مہر کے بدلےخلع دینے کی صورت میں حق مہر واپس کرنے کےلئے ایک ہفتہ کی مہلت دینا درست ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
۔نکاح کے بعد اگر میاں بیوی میں باہمی مفاہمت نہ ہو، یا کسی اور وجہ سے زوجین میں نباہ دشوار ہو جائے اور شوہر طلاق دینے پر آمادہ نہ ہو، تو شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ میاں بیوی خلع کر لیں۔خلع شرعاً طلاقِ بائن کے حکم میں ہوتا ہے، اس سے مہر اور نان و نفقہ ساقط ہو جاتا ہے۔ البتہ عدت کا نفقہ اور ایامِ عدت کا سکنیٰ ساقط نہیں ہوگا۔ ہاں! اگر اس کی صراحت کر دی جائے، یا صرف مرد ہی صراحت کر دے، تو پھر عدت کا نفقہ بھی ساقط ہو جائے گا، البتہ سکنیٰ پھر بھی ساقط نہیں ہوگا۔
اگر نافرمانی بیوی کی طرف سے ہو، تو شوہر خلع کے بدلے بیوی سے مہر یا مال لے سکتا ہے؛ لیکن اگر نافرمانی بیوی کی طرف سے نہ ہو، تو شوہر کے لیے خلع کے بدلے بیوی سے مہر واپس لینا یا کوئی مال لینا جائز نہیں۔
۳۔حائضہ عورتوں کی عدت تین حیض ہے ۔اور حاملہ کی عدت وضع حمل ہے جو نہ حائضہ ہوں اورنہ حاملہ تو ان کی عدت تین ماہ ہے ۔
۴۔صورت مسئولہ میں شوہر کا بیوی کو ایک ہفتہ یا کم وبیش مہلت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
حوالہ جات
سورۃ البقرۃ:(229
﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴾
الدر المختارشرح تنویر الابصار:234
"الخلع هو إزالة ملك النكاح المتوقفة على قبولها بلفظ الخلع، أوما في معناه ولا بأس به عند الحاجة للشقاق بعدم الوفاق بما يصلح للمهر. وحكمه أن الواقع به ولو بلا مال، وبالطلاق الصريح على مال طلاق بائن، وكره تحريماً أخذ شيء، إن نشر، وإن نشرت لا. ويسقط الخلع كل حق لكل منهما على الأخر مما يتعلق بذلك النكاح إلا نفقة العدة وسکناھا ،الااذا نص علیھا ،فتسقط النفقۃ لا السکنی .
(تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق:(3/26
(عدة الحرة للطلاق أو الفسخ ثلاثة أقراء أي حيض) أي إذا طلقت الحرة أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق فعدتها ثلاثة قروء إن كانت من ذوات الحيض لقوله تعالى {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء}.
)البحر الرائق :(6/132
(قوله وتأجيل كل دين إلا القرض) أي صح لأن الدين حقه فله أن يؤخره سواء كان ثمن مبيع أو غيره تيسيرا على من عليه ألا ترى أنه يملك إبراءه مطلقا فكذا مؤقتا، ولا بد من قبوله ممن عليه الدين فلو لم يقبله بطل التأخير فيكون حالا كذا ذكره الإسبيجابي، ويصح تعليق التأجيل بالشرط فلو قال رب الدين لمن عليه ألف حالة إن دفعت إلي غدا خمسمائة فالخمسمائة الأخرى مؤخرة عنك إلى سنة فهو جائز كذا في الذخيرة.
حنبل اکرم
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
23 /جمادی الثانیہ1447ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | حنبل اکرم بن محمد اکرم | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |


