03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
کیا عدالت شرعی طلاق دے سکتی ہے ؟
89357طلاق کے احکامکسی کو طلاق واقع کرنے کا حق دینے کا بیان

سوال

میری زوجہ تقریباً چودہ ماہ قبل بلااجازت و اطلاع، اپنے والدین کے گھر چلی گئیں۔ اُس وقت بندہ کراچی میں زیرِ تعلیم تھا۔ جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو بذریعہ فون ان سے رابطہ کیا اور واپسی کی درخواست کی۔ اس کے ساتھ ہی، علاقے کے عرف و رواج کے مطابق، ایک جرگہ بھی اُن کے گھر بھیجا، جس پر اُن کے والدین نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ "شوہر جب خود آئے گا تو بیٹی کو روانہ کر دیں گے۔" جب بندہ اپنی چھٹیوں میں گاؤں پہنچا اور اہلیہ کو واپس بلانے کی کوشش کی تو ان کے والدین نے پھر انکار کر دیا اور خاموشی سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کو بنیاد بنا کر آزادی (طلاق) کا دعویٰ کر رہے ہیں، حالانکہ نہ بندہ نے طلاق دی، نہ کسی وکیل یا وکالت کے ذریعے کوئی اجازت دی، اور نہ ہی کسی قسم کی شرعی کارروائی میں شامل ہوا۔ اب وہ مہر کے علاوہ، ان چودہ مہینوں کا نان و نفقہ بھی طلب کر رہے ہیں جو خاتون نے اپنے والدین کے ہاں گزارے، جبکہ وہ نافرمانی کے طور پر اور بلااجازت وہاں قیام پذیر تھیں۔ سوال یہ ہے: 1. کیا ایسی صورت میں عدالتی فیصلے سے شرعی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ 2. جبکہ شوہر نے نہ طلاق دی، نہ تفویض کی، اور نہ عدالتی کارروائی میں شامل ہوا؟

تنقیح : سائل نے فون پر بتایا کہ اس کی بیوی کا کوئی قصور نہیں ہے اس کے والدین اور ماموں  اپنی ذاتی عناد و دشمنی کی وجہ سے  اس کو گھر  واپس نہیں آنے دے رہے  اور علیحدگی کا مطالبہ کررہے ہیں اس مقصد کے لیے عدالت میں کیس دائر کیا ہے  ابھی کیس چل رہا ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۔آپ  کے ذمہ  ان 14مہینوں کا نفقہ  واجب نہیں  ؛کیونکہ ان دنوں میں  آپ  کی بیوی بقول آپ کے  بلا اجازت والدین کے گھر چلی گئی،  آپ کے پاس نہیں رکی ۔   جن حضرات نے اسے روکا ہے  نفقہ ان کے ذمہ ہے ۔

۲۔ طلاق کا اختیار صرف شوہر کے پاس ہے ،اگر وہ طلاق دے گا تو طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں۔البتہ فسخ نکاح کی شرائط میں سے اگر کوئی شرط پائی جائے اور عورت  قاضی کے سامنے گواہوں کے ذریعے اس کو ثابت کرے ،تو قاضی کو   فسخِ نکاح کا اختیار  حاصل ہوتا ہے۔پھر قاضی اگر فسخ نکاح کا فیصلہ کرلے ،تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے۔لہذا عورت اگر  پہلے شوہر  کے پاس  فسخ نکاح کے بعد رہنا پسند کرتی ہو،تو نکاح جدید کے بعد رہ سکتی ہے۔

حوالہ جات

سنن البیہقی،15513)رقم(:

إنما الطلاق      لمن أخذ بالساق.

  تبیین الحقائق فی شرح کنز الدقائق،55/3)ص(:

لا تجب النفقة للناشزة ، وهي الخارجة من بيت زوجها بغير إذنه المانعة نفسها منه۔۔ولو عادت الناشزة إلى منزل الزوج وجبت لها النفقة لزوال المانع .

حاشیہ ابن عابدین،556/3)ص(:

(لا) نفقة لأحد عشر: مرتدة، ومقبلة ابنه، ومعتدة موت ومنكوحة فاسدا وعدته، وأمة لم تبوأ، وصغيرة لا توطأ، و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره...

وفي المجتبى: ‌نفقة ‌العدة كنفقة النكاح. وفي الذخيرة: وتسقط بالنشوز وتعود بالعود.

مجمع  الاَنھر ،180/2)ص(:

ولا نفقة لناشزة أي:عاصیة ما دامت علی تلک الحالة.

سلیم اصغر بن محمد اصغر

 دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

22/جمادی الثانیہ 1447ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سلیم اصغر بن محمد اصغر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب