03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
كمپنی سےبیج کےبدلے فصل کی پیداوار کا معاہدہ کرنا
89411خرید و فروخت اور دیگر معاملات میں پابندی لگانے کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میرا ایک دوست ہےجس کا ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہے کہ کمپنی اسے بیج اس شرط پر دیتی ہے کہ وہ تیار شدہ فصل ایک متعین نرخ پر اسی کمپنی کو فروخت کرے گا۔میں نے اپنے دوست سےوہی بیج حاصل کیے تھے، میرا کمپنی کے ساتھ کوئی معاہدہ یا براہِ راست لین دین نہیں ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر میں اپنی فصل کمپنی کو فروخت نہ کروں، جبکہ مارکیٹ میں اس فصل کا ریٹ دگناہے، تو کیا میری کمائی حرام ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں آپ  اس شرط کےپابند نہیں   ۔ اگر آپ  پیداوار کسی دوسری کمپنی کو فروخت کرتےہیں  تو  اس سےآپ کی کمائی پرکوئی اثر نہیں پڑےگا ،آپ کی کمائی  حلال ہے۔ البتہ کمپنی کا زمیندار کو اس شرط پر بیج یا قرض دینا کہ زمیندار اس قرض کی بنا پر اپنی فصل اسی کمپنی کو فروخت کرے، یہ عقد شرعاً صحیح نہیں۔

        البتہ زمینداروں کو فصل کی تیاری کےلیےنقدرقم کی ضرورت ہوتی ہےجس کوپوراکرنےکےلیےشریعت    نےعقد سلم کی اجازت دی ہے  ۔اس عقد میں سلم کی  تمام شرائط (یعنی  پیداوار کی جنس ،صفت ،مقدار ،ادائیگی کی تاریخ اور قیمت متعین کرکےرقم پیشگی ادا کرنا) ضروری ہے۔

     لہذا اگر کمپنی زمیندار کو عقد سلم کے تحت پہلے سے رقم دے  اور زمیندار اس سے اپنی ضرورت پوری کرےاور جب پیداوار تیار ہوجائے تو زمیندار عقد سلم کی شرائط کی پابندی کرتےہوئےکمپنی کو مال ادا کرےتو یہ طریقہ شرعاًدرست ہوگا۔

حوالہ جات

السنن الصغير للبيهقي: (2/ 273)

عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّهُ قَالَ: كُلُّ ‌قَرْضٍ ‌جَرَّ مَنْفَعَةً فَهُوَ وَجْهٌ مِنْ وُجُوهِ الرِّبَا.

     فتح القدير للكمال بن الهمام - ط الحلبي :(6/ 446)

وكذلك لو باع ‌عبدا ‌على ‌أن يستخدمه البائع شهرا أو دارا على أن يسكنها أو على أن يقرضه المشتري درهما أو على أن يهدي له هدية)؛ لأنه شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين؛ ولأنه عليه الصلاة والسلام نهى عن بيع وسلف؛ ولأنه لو كان الخدمة والسكنى يقابلهما شيء من الثمن يكون إجارة في بيع، ولو كان لا يقابلهما يكون إعارة في بيع.

          الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية: (3/ 202)

كذا في البحر الرائق قال محمد - رحمه الله تعالى - في كتاب الصرف إن أبا حنيفة - رحمه الله تعالى - كان يكره كل قرض جر منفعة قال الكرخي هذا إذا كانت المنفعة مشروطة في العقد بأن أقرض غلة ليرد عليه صحاحا أو ما أشبه ذلك فإن لم تكن المنفعة مشروطة في العقد فأعطاه ال ليشتري المستقرض من المقرض متاعا بثمن غال فهو مكروه مستقرض أجود مما عليه فلا بأس به وكذلك إذا أقرض رجلا دراهم أو دنانير.

        فقه البيوع:(1/492)

ومن قبيل زيادة الشرط في البيع ،مايسمي:(صفقة في صفقة)وهو:أن يشترط في العقد عقد أخر،مثل :أن يقول البائع :(بعتك داري بكذا علي أن تبيعني سيارتك بكذا)وقد اتفق العلماء علي كونه ممنوعاًشرعاً.

رشيدخان

دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

25/جمادی الا ٓخرۃ/1447ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

رشید خان بن جلات خان

مفتیان

شہبازعلی صاحب / فیصل احمد صاحب