03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدکاتمام اولادکوسوناہبہ کرناسوائے ایک بیٹے کے
89343ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

 والد صاحب نے سعودی عرب سے کچھ سونا لایاتھا، جو میرے علاوہ تمام بہن بھائیوں کو شادی کے وقت دیا گیا۔ بعد میں کچھ سونا بچ گیا، جسے فروخت کر کے زمین خریدی گئی۔ میرا مطالبہ: میرے حصے کے سونے کی رقم کو میری ادا کردہ رقم (جووالدصاحب نے زمین خریدنے کے لیے لی تھی اورزمین خریدکر پھرمجھے میراحصہ نہیں دے رہے تھے)میں جمع کیا جائے اور اس سے خریدشدہ زمین میرے حوالے کی جائے۔ دلائل: حضرت نعمان بن بشیر کے والد نے انہیں ایک تحفہ دینا چاہا، نبی ﷺ نے پوچھا: "کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو بھی ایسا ہی دیا ہے" انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "پھر مجھے اس ظلم پر گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنتا" (صحیح بخاری 2537، صحیح مسلم 1623) ۔والد صاحب کا جواب: یہ احادیث صحیح بخاری (2537) اور صحیح مسلم (1623) دونوں میں ضعیف ہیں۔ کیا میرایہ مطالبہ شرعی لحاظ سے جائز ہے۔   کیا والد صاحب کا جواب درست ہے  کہ احادیث ضعیف ہیں۔

تنقیح:

سائل کا بیان یہ ہے کہ والد نے سعودی عرب سے لایا ہوا سونا تمام بہن بھائیوں میں تقسیم کردیا، مگر مجھے نہیں دیا۔میں نے والد سے مطالبہ کیا کہ جیسےاوربہین بھائیوں کوسونا دیامجھے بھی دیا جائے، اگر سونا نہیں دیتے تو اس کے بقدر زمین میں سے مجھے حصہ دیں، اور وہ حصہ بھی زمین کا دیں جو میری ذاتی رقم سے خریدا گیااوراب تک مجھے نہیں دیاگیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہرشخص اپنی زندگی میں اپنی جائیدادکامالک ومختار ہوتاہے،وہ اس میں ہر قسم کےتصرف کاحق رکھتاہے، مذکورہ صورتِ حال کے تناظر میں والد کی طرف سے بہن بھائیوں کو سونا دینا شرعاً "ہبہ" ہے۔ ہبہ میں اصل یہ ہے کہ والد اپنی اولاد کے درمیان برابری اور عدل کا لحاظ رکھے۔ لہٰذا بہتر اور مناسب یہی ہے کہ جس طرح والد نے دوسرے بیٹوں کو ہبہ دیا ہے، اسی طرح آپ کو بھی دے۔ آپ اپنے والد سے نہایت ادب کے ساتھ درخواست کر سکتے ہیں جبراان سے کچھ لینے کاحق آپ کونہیں۔یادرہے کہ والد سے مناظرہ کرنابلکل درست نہیں ،ان سے درخواست کی جائے ۔

 جمہور فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اگر والد کسی ایک بیٹے کو اتفاقاً یا کسی معقول شرعی وجہ جیسے دیانت، علم، نیکی، یا خدمتِ والدین کی بنیاد پر زیادہ دے دے، اور اس کا مقصد دوسرے بچوں کو نقصان پہنچانا یا جان بوجھ کر ناانصافی کرنا نہ ہو، تو ایسا کرنا جائز ہے۔

  اگر والد کا مقصد کسی ایک کو ترجیح دے کر دوسروں پر ظلم کرنا، دلوں میں میل ڈالنا، یا کسی کو حق سے محروم کرنا ہو، تو ایسی ترجیح کسی کے نزدیک جائز نہیں۔ نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں بھی ترجیح کا مقصد بلاوجہ امتیاز تھا، اسی لیے نبی کریم ﷺ نے اسے ظلم قرار دیتے ہوئے اس ہبہ کو رد کرنے کا حکم دیا۔

لہٰذا اس واقعہ سے ہر قسم کی ترجیح کی حرمت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ وہی ترجیح ناجائز ہے جو بلا وجہ، ناحق، یا محض کسی کو ضرر پہنچانے کے لیے ہو۔

رہی یہ بات کہ حضرت نعمان بن بشیروالی روایت  ضعیف ہے ،تو ایسابالکل نہیں بلکہ حدیث بخاری ومسلم میں مذکور ہے اور صحیح حدیث ہے ۔عام آدمی کااحادیث پر حکم لگانااور تبصرہ کی جسارت کرناانتہائی خطرناک ہے۔

حوالہ جات

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 264):

للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء.

تكملةفتح الملهم (75/2):

قال العبد الضعيف عفا الله عنه : قد ثبت بما ذكرنا أن مذهب الجمهور في التسوية بين الذكر والأنثى فى حالة الحياة أقوى وأرجح من حيث الدليل .

المبسوط للسرخسي (12/56):

وإنما تجب التسوية في الوصية بعد الموت فأما في الهبة في الصحة، فلا؛ ألا ترى أن أبا بكر - رضي الله تعالى عنه - خص عائشة بالهبة لها في صحته .

تكملةفتح الملهم (71/2):

فالذي يظهر لهذا العبد الضعيف عفا الله عنه : أن الوالد إن وهب لأحد أبنائه هبة أكثر من غيره اتفاقاً ، أو بسبب علمه ، أو عمله ، أوبره بالوالدين ، من غير أن يقصد بذلك إضرار الآخرين ، ولا الجور عليهم ، كان جائزا على قول الجمهور... أما إذا قصد الوالد الإضرار ، أو تفضيل أحد الأبناء على غيره بقصد التفضيل من غير داعية مجوزة لذلك ، فإنه لا يبيحه أحد.والظاهر من الروايات في قصة النعمان بن بشير رضى الله عنها أن الواقع فيها كان الثاني ، دون الأول ...ولذلك سماه جوراً ، وامتنع من أن يكون شاهدا له ، وأمره برده فلابستقيم الاستدلال بهذه القصة على حرمة التفضيل مطلقا ، وإنما يحرم التفضيل في خصوص الأحوال التي وقعت في قصة النعمان بن بشير ، وهى أن تكون الهبة بقصد الإضرار أو بقصد التفضيل من غير داعية .

 عزیزالرحمن

  دار الافتاءجامعۃ الرشید کراچی

21/جمادی الآخرۃ 1447ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عزیز الرحمن بن اول داد شاہ

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب