03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد کی جائیداد میں محنت ایک بیٹے کی ہو تو میراث کا وارث کون ہو گا؟
89406تقسیم جائیداد کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

زید ایک کاروباری آدمی تھا، اس کے تین بچے تھے ،دو لڑکے اور ایک لڑکی ۔زید نے سمجھدار ہونے کی وجہ سے کاروبار کی ذمہ داری اپنے بڑے بیٹے کے حوالے کی۔ اس نے کاروبار میں محنت کی اور کافی ترقی ہوئی، اس کاروبار ہی کی رقم سے اس نے زمینیں خریدیں۔ وقت کے گزرنے کے بعد زید کا انتقال ہوگیا اور خریدی گئی تمام زمینوں کے کاغذات  بھی زید کے نام تھے۔تقسیم وراثت میں بڑے بھائی نے تمام ورثہ کو ان زمینوں میں حصہ شرعی طریقے کے مطابق  دے دیااور کاغذات میں  بھی تقسیم کرادی ۔بعد میں بڑا بھائی  کہتا ہے کہ زمین میری محنت کی کمائی سے بنی ہے لہذا ان میں دوسرے بہن بھائیوں کا حصہ شرعی طور نہیں بنتا تھا، اب تفصیل طلب مسئلہ خریدی گئی زمینوں کے بارے میں ہے کہ کیادوسرے ورثہ شرعاحق دار  تھے یا نہیں؟ جبکہ تمام جائیداد والد کے نام تھی اور سب اکٹھے رہتے تھےہیں ۔بینوا وتؤاجروا ،وفقکم اللہ فی الدارین۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زید کے بڑے بیٹے نے جو زمینیں والد کے کاروبار سے حاصل ہونے والے پیسوں سے خریدی ہیں ،وہ سب  والد ہی کی ملکیت ہیں  ،ان میں  اس کے  تمام ورثہ کا حق بنتا ہے ۔تاہم بڑے بھائی کے احترام  اور ان کی محنت کو سامنے رکھتے ہوئے  انہیں اپنی  خوشی سے کچھ  نہ کچھ  ضرور دینا چاہیے ۔ اس مال  کے بننے میں  انہوں نے کردار  ادا کرکے سب پر احسان کیا تو دیگر ورثہ کو  بھی  احسان فراموشی نہیں کرنی چاہیے ۔تاہم کوئی نہ دے تو بڑے بھائی  اپنے حق کے طور پر مطالبہ نہیں  کر سکتے۔

حوالہ جات

سنن ابن ماجه (4/ 9 ت الأرنؤوط):

حدثنا سويد بن سعيد، حدثنا عبد الرحيم بن زيد العمي، عن أبيه عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من فر من ميراث وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة.

حاشیہ ابن عابدین،283/4)ص(:

الاب وابنہ یکتسبان فی صنعۃ واحدة ولم یکن لھما شئ فالکسب کلہ للاب ان کان الابن فی عیالہ لکونہ معیناً لہ، الا تری لو غرس شجرة تکون للاب، انتھی کلام الشامی، قلت فما کان المال للاب کان کلہ بالاولى.

الفتاوى الهندية 6/ 448:

وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت وللبنتين فصاعدا الثلثان، كذا في الاختيار شرح المختار وإذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين، كذا في التبيين.

المبسوط للسرخسي. 29/ 139:

وللبنت الواحدة إذا انفردت النصف ثبت ذلك بالنص وهو قوله تعالى {وإن كانت واحدة فلها النصف} [النساء: 11] واستدلالا أيضا بميراث الأخت فقد قال الله تعالى {وله أخت فلها نصف ما ترك} [النساء: 176] والبنت أقرب إليه من الأخت فإن كن ثلاثا فصاعدا فلهن الثلثان بالنص وهو قوله تعالى {فإن كن نساء فوق اثنتين فلهن ثلثا ما ترك} [النساء: 11] فهذا تنصيص على أنه لا يزاد للبنات على الثلثين عند الانفراد، وإن كثرن {فإن كانتا اثنتين فلهما الثلثان} [النساء: 176] في قول عامة الصحابة - رضوان الله عليهم - وهو قول جمهور الفقهاء.

سلیم اصغر بن محمد اصغر

دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی

25/جمادی الثانیہ  /1447ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سلیم اصغر بن محمد اصغر

مفتیان

فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب