| 88836 | نکاح کا بیان | ولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان |
سوال
ایک شخص اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے بھتیجے سے کرنا چاہتا تھا، لیکن بیٹی اس رشتے سے راضی نہیں تھی، کیونکہ وہ بھتیجا نشہ کرتا تھا، اس پر بری نظر رکھتا تھا اور اس کو غلط طریقے سے چھونے کی کوشش بھی کر چکا تھا۔ والد صاحب کو بعد میں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے بیٹی سے وعدہ کیا کہ اب وہ اس کی شادی اسی کی مرضی سےخاندان سے باہر کریں گے،کیونکہ خاندان میں وہی ایک لڑکا تھا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد خاندان کے لوگوں نے والدصاحب کو کہا کہ آپ کی بیٹی کی عمر ہو رہی ہے، اس کا رشتہ کہیں طے کریں۔ اس بات پر والد صاحب کے ذہن میں پھر وہی پرانا خیال آیا، حالانکہ وہ وعدہ کر چکے تھے۔ اب وہ بیٹی سے کہہ رہےہیں کہ تم استخارہ کرو کہ رشتہ خاندان میں کیا جائے یا خاندان سے باہر، حالانکہ خاندان میں صرف وہی ایک بھتیجا ہے جو پہلے سے بُرے کردار کا ہے، سگریٹ پیتا ہے، اور ماضی میں اس نے بیٹی پر بری نظر رکھی تھی ۔یہ بات والدصاحب خود بھی جانتے ہیں اور لڑکے نے بھی مان لی تھی۔ ایسی صورت میں شرعی طور پر کیا حکم ہے؟ (۱)کیا والدصاحب کو اپنی بیٹی کو ایسے شخص سے نکاح پر مجبور کرنے کا حق ہے؟ (۲)اور کیا استخارہ ایسی صورتحال میں کرنا درست ہے جب معاملہ پہلے ہی واضح ہو کہ لڑکے کا کردار صحیح نہیں ہے اور ناپسندیدہ ہے؟
تنقیح :سائل سے استفسار پر معلوم ہوا ہے کہ لڑکی عاقلہ بالغہ ہےاور لڑکا پہلے چرس پیتا تھا ،اب صرف سیگریٹ پیتا ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کے پہلے سوال (کیا والد صاحب کومذکورہ شخص سے اپنی بیٹی کا نکاح کرانے کا حق ہے یا نہیں ؟)کاجواب یہ ہےکہ شرعاً تو والد کےلیے اپنی عاقلہ بالغہ بیٹی کو اس کی مرضی کے خلاف نکاح پر مجبور کرنے کا حق نہیں ،البتہ والد کی شفقت چونکہ اولاد پر کامل ہوتی ہے،اس وجہ سے اگر والد صاحب اس نکاح میں بیٹی کے لیے کوئی مصلحت سمجھتے ہوں اور اس بنیاد پر نکاح کرانا چاہتے ہوں تو بیٹی کو سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کرلینا چاہیے ۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ استخارہ شرعاً انہی امور میں جائز ہے جو بالکلیہ حرام نہ ہوں اوریہاں چونکہ اس لڑکے سے شرعاً نکاح حرام نہیں ،لہذا اس وجہ سے استخارہ کیا جاسکتا ہے ۔اور استخارہ کا مطلب ہوتا ہے: اللہ تعالی سے اپنےلیےخیرمانگنا،لہذااگراستخارہ کےبعدکےحالات وواقعات کی روشنی پرنکاح کارجحان بنےتونکاح کرلےاوراگر رجحان نہ ہو توانکار کردے۔
حوالہ جات
الدر المختارمع ردالمحتار(4/159):
وفي الدرالمختار:(ولاتجبرالبالغة البكر على النكاح)لانقطاع الولاية بالبلوغ.
البحر الرائق(3/118):
وفي البحر الرائق:لاتجبر بكربالغة على النكاح،أي:لاينفذعقدالولي عليهابغير رضاهاعندنا.
البحر الرائق مع منحة الخالق(2/91):
وفي منحة الخالق :(ومن المندوبات صلاة الاستخارة) قال الشيخ إسماعيل: وفي شرح الشرعة:من هم بأمروكان لايدري عاقبته، ولايعرف أن الخير في تركه أو الإقدام عليه، فقد أمره رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يركع ركعتين ،يقرأ في الأولى :فاتحة الكتاب وقل يا أيها الكافرون، وفي االثانية: الفاتحةوقل هوالله أحد ،فإذافرغ قال اللهم الخ.
محمد وجیہ الدین
دارالافتاءجامعہ الرشید کراچی
04/جمادی الاولی 1447ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد وجیہ الدین بن نثار احمد | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |


