| 88822 | طلاق کے احکام | طلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان |
سوال
24 سال نان نفقہ اور بچوں کے اخراجات پورے نہ کرنے پر اور پھر دوسری شادی کر کے اس کے اخراجات پورے کرنے پہ بیوی نے اس نیت سے کہ اس طرح شاید شوہر کو کوئی احساسِ ذمہ داری ہو یہ لکھوایا کہ وہ ہر ہفتے ایک رات کے لیے آئے گا اور ہر مہینے دس ہزار روپے خرچے کےلیے دے گا اگر ایسا نہ کیا تو بیوی کو طلاق ہو گی مگر پھر بھی نہ وہ ہر ہفتے آیا اور نہ5 ماہ سے خرچہ دیا درمیان میں کبھی 15 کبھی 20 دن بعد آیا 5منٹ کے لیےمگر خرچہ پھر بھی نہیں دیا جبکہ 2018 سے کوئی ازدواجی تعلق بھی نہیں رہا اس سے پہلے2020 میں بھی اس نے لکھ کر دیا تھا کہ اگر وہ خرچہ نہ اٹھائے اور بات نہ مانے مسائل نہ حل کر ےتو بیوی کو اجازت ہو گی کہ وہ خلع لے لیں اور نکاح نامے میں بھی والد کی طرف سے یہ شرط تحریر کروائی گئی تھی کہ بیوی جب چاہے خلع لے لیں اس سے پہلے 2010 میں شوہر نے تین بار بولا کہ اگر تم چاہو تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا یہ الفاظ اس نے تین بار دہرائے پھر اگلے دن بیوی سے تین بار پوچھا کہ تم طلاق لینا چاہتی ہو تو بیوی نے نہیں میں جواب دیا اب اس تفصیل کی روشنی میں میں دو باتوں کی رہنمائی مطلوب ہیں۔
1-پانچ ماہ پہلے مئی میں جب بیوی نے یہ شرط لکھ کر شوہر سے سائن کرایا کہ اگر ہر ہفتے میں آپ نہ آئے اور ہرمہینے دس ہزار نفقہ نہ دیا توبیوی کو طلاق ہوگی کیا تحریری معاہدہ اور شرائط کے خلاف ورزی کی وجہ سے بیوی کو طلاق واقع ہوگئی؟
2- شوہر نے جو بیوی کو لکھ کرکہا تھا اس شرط پر اگرمیں بیوی اوربچوں کی ضروریات پوری نہ کروں تو بیوی کوخلع لینے کی اجازت ہے کیا اب بیوی کو خلع لینے کی اجازت ہے ؟جبکہ شوہرنے شرائط پوری نہ کی ہوں۔
تنقیح :سائل نے فون پر بتایا کہ معاہدے پرمیاں بیوی کی سائن موجودہے۔اور معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد شوہر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہاہے ،شوہر20،25دن بعد صرف پانچ منٹ کے لیے آتا ہے وہ بھی بیٹی کے لیے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
1- فراہم کردہ دستاویزات کے مطابق جب بیوی نے کاغذپر تحریرلکھ کر شوہر سے سائن کرایا کہ اگر شوہرہر ہفتے میں ایک بار نہ آئے اورہر مہینےدس ہزار خرچہ نہ دے تو بیوی کو طلاق واقع ہوگی ،یہاں طلاق کو معاہدےمیں کیےگئے شرائط کوپورا نہ کرنے پر معلق کیا گیاہے۔لہذا شرائط پوری نہ کرنے کی وجہ سے بیوی کو ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہےاوراگر مکمل عدت گزرگئی ہےاورشوہرنےرجوع نہیں کیاتو یہ طلاق بائن بن گئی ،اب عورت اپنی مرضی سےجہاں چاہیےنکاح کرسکتی ہے ۔تاہم قانونی تقاضوں کوپوراکرنےکااہتمام رہےتاکہ آئندہ شوہرنکاح کا دعوی نہ کرسکے۔
2- نکاح نامہ کی شق نمبر18 کو دیکھنے سےمعلوم ہواکہ شوہرنےجو یہ لکھ کردیاکہ قانون شریعت کے مطابق خلع کاحق حاصل ہے۔اس سےشوہرکی رضامندی معلوم ہوتی ہے،لہٰذاخلع کی صورت میں اگر عدالت نے شوہرکے خلاف فیصلہ دیا تو وہ نافذہوجائےگا۔لیکن یہ حق اس وقت حاصل ہوتا ہےجب نکاح باقی ہو،چونکہ بیوی کو پہلے سے طلاق بائن واقع ہوگئی ہے اس لیے اب خلع کی ضرورت نہیں رہی۔
حوالہ جات
الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية :(1/ 420)
وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق ولا تصح إضافة الطلاق إلا أن يكون الحالف مالكا أو يضيفه إلى ملك.
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي :(3/ 329)
نكحها على أن أمرها بيدها صح؛(قوله صح) مقيدبماإذاابتدأتالمرأة فقالت زوجت نفسي منك على أن أمري بيدي أطلق نفسي كلما أريد أو على أني طالق فقال الزوج قبلت، أما لو بدأ الزوج لا تطلق ولا يصح الأمر بيدها.
(الحيلة الناجزة، ص:133)
وقال أشرف علي التهانوي رحمه الله تعالى:وأما المتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمير ما نصه إن منعها نفقة الحال فلها القيام فإن لم يثبت عسره أنفق أو طلق وإلا طلق عليه ،قال محشيه أي طلق عليه الحاكم من غير تلوم إلی أن قال: وإن تطوع بالنفقة قريب أوأجنبي فقال ابن القاسم: لها أن تفارق؛ لأن الفراق قد وجب لها .
رشیدخان
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
04/جمادی الاولی 1447ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | رشید خان بن جلات خان | مفتیان | شہبازعلی صاحب / فیصل احمد صاحب |


