| 88958 | شرکت کے مسائل | شرکت سے متعلق متفرق مسائل |
سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ میں لوگ مرغی کو انڈوں پربٹھاکر بچے نکلواتے ہیں، اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہےکہ کسی کے پاس انڈے تو ہوتے ہیں مگر مرغی نہیں ہوتی، وہ کسی سے مرغی لے کر انڈوں پر بٹھا کر بچے نکلواتے ہیں، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کی مرغی والے کے گھر میں ہی مرغی کو انڈے رکھ کر بچے نکلواتے ہیں اور جب بچے بڑے ہو جائے تو آپس میں آدھا آدھا تقسیم کرتے ہیں، اور یہ طریقہ کار بہت عرصہ سے رائج ہے، جس میں لوگ نزاع بھی نہیں کرتے۔ اس میں یہ صورت بھی آتی ہے کہ سارے انڈے خراب ہوتے ہیں، ایک بچہ بھی نہیں نکلتا، ایسی صورت میں بھی کوئی نزاع نہیں ہوتی، بس مرغی والے کو صرف مرغی واپس کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مطالبہ نہیں ہوتا، کیا مذکورہ بالا طریقہ سے بچے نکلوا کر مقرر کردہ حصوں کے مطابق تقسیم کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت سوال سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے علاقہ میں اس بات کاعام رواج ہےکہ دوسرے کی مرغی بالعوض حاصل کرکے انڈوں پر بٹھائی جاتی ہے،مذکورہ طریقہ تودرست نہیں،البتہ درست طریقہ یہ ہوسکتاہے کہ انڈوں کامالک مرغی کومدت اوراجرت طے کرکے کرایہ پرلےلے،جب مدت ختم ہوجائے اورچوزے نکل آئیں توباہمی رضامندی سے کرایہ کی رقم کے بدلہ چوزے لےلے،لیکن اگرانڈوں والا متعین کرایہ کی جگہ چوزے دینے کے لئے تیار نہ ہوتواس کوچوزے دینے پر مجبور نہیں کیاجاسکتا۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (ج 18 / ص 146):
قال محمد بن الحسن - رحمه الله تعالى - : إذا كان دود القز من واحد وورق التوت منه والعمل من آخر على أن القز بينهما نصفان أو أقل أو أكثر لم يجز ، وكذا لو كان العمل بينهما وإنما يجوز أن لو كان البيض منهما والعمل عليها ، فإن لم يعمل صاحب الأوراق لا يضره۔
وفی درر الحكام شرح غرر الأحكام (ج 7 / ص 82):
جاز ( إجارة الحمام ) فجاز أخذ أجرته لما روي أنه صلى الله عليه وسلم { دخل الحمام في الجحفة } ولتعارف الناس ( والحجام ) لما روي أنه صلى الله عليه وسلم { احتجم وأعطى أجرته } ( والظئر بأجر معين ) والقياس أن لا تصح ؛ لأنها ترد على استهلاك العين وهو اللبن فصار كاستئجار البقرة أو الشاة ليشرب لبنها أو البستان ليأكل ثمره وجه الاستحسان قوله تعالى { فإن أرضعن لكم فآتوهن أجورهن } وعليه انعقد الإجماع وقد جرى به التعامل في الإعصار بلا نكير ولا نسلم أن العقد ورد على استهلاك العين بل على المنفعة وهي حضانة الصبي وتلقيمه ثديها وتربيته وخدمته واللبن تابع ، وإنما لا تستحق الأجرة إذا أرضعت بلبن الشاة ؛ لأنها لم تأت بالعمل الواجب عليها ؛ لأنه إيجار وليس بإرضاع ( وطعامها وكسوتها ) وعندهما لا تجوز للجهالة وله أن الجهالة إنما تفسد العقد لإفضائها إلى المنازعة وهنا ليس كذلك ؛ لأن العادة بين الناس التوسعة على الآظار۔
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۱۷/جمادی الاولی۱۴۴۷ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |


