03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جعلی صنعتی لائسنس پر لوہا منگوانے کا شرعی حکم
89006جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ

میں لوہے (فولاد و اسٹیل) کے کاروبار سے وابستہ ہوں اور ہم درآمدی مال میں لین دین کرتے ہیں۔ لوہا جو درآمد ہو رہا ہے اس کی دو صورتیں ہیں: ایک تجارتی بنیاد پر اور دوسری صنعتی اجازت نامے (انڈسٹری لائسنس) پر۔ تجارتی اور صنعتی درآمد کی قیمتِ خرید میں تقریباً دس ہزار روپے فی ٹن کا فرق ہے۔ اگر تجارتی بنیاد پر مال درآمد کریں تو قیمت دو لاکھ چالیس ہزار روپے فی ٹن آتی ہے، جبکہ صنعتی لائسنس پر دو لاکھ تیس ہزار روپے فی ٹن میں آتا ہے، اس لیے تجارتی بنیاد پر مال منگوا کر فروخت کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر صنعتیں صرف کاغذی کارروائی کی حد تک ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی عملی وجود نہیں۔ آپ رہنمائی فرمائیں کہ

 ایسے حالات میں کیا ہم بھی کاروبار میں زندہ رہنے کے لیے صنعتی لائسنس استعمال کر کے مال منگوا سکتے ہیں؟

 درآمد کنندگان مال منگوانے کے لیے تمام ہی صنعتی اجازت نامے استعمال کرتے ہیں اور ہم اس وقت انہی لوگوں سے مال خرید کر فروخت کرتے ہیں۔

اور مولانا صاحب! جب ہم صنعتی لائسنس کے تحت درآمدشدہ مال خریدتے ہیں تو تجارتی بنیاد پر مال منگوانے والے لوگوں کووہی مال اپنی خرید کی قیمت سے بھی کم پربیچنا پڑتاہے، اس لیے تجارتی مال خرید کر بیچنا بالکل بھی فائدہ مند یا ممکن نہیں رہتا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب آپ کی کوئی حقیقی صنعت اورفیکڑی نہیں تو شرعا خود کو صنعتی رعایت کے تحت ظاہر کر کے مال منگوانا ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ یہ رعایت صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص ہے جو حقیقت میں فیکٹری یا صنعت چلاتے ہیں اور ملک کے اندر پیداوار کرتے ہیں۔ جعلی یا غیر حقیقی صنعت کے نام پر رعایت حاصل کرنا حکومت اور نظام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، جو شرعاً حرام اور ناجائز کمائی کے زمرے میں آتا ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص ایسے لوگوں سے لوہا خریدے جنہوں نے صنعتی رعایت کے ذریعے مال منگوایا ہے اور وہ خود اسے بیچ رہے ہیں، تو خریدار پر گناہ نہیں، بشرطیکہ اسے یقین نہ ہو کہ وہ رعایت دھوکے سے لی گئی ہے، کیونکہ خرید و فروخت ظاہری اعتبار سے درست ہے۔ لیکن اگر خریدار کو یقینی علم ہو کہ وہ رعایت جعل سازی سے حاصل کی گئی ہے اور وہ جان بوجھ کر ایسے لوگوں سے خرید و فروخت کرے، تو یہ بھی گناہ کے کام میں تعاون کے زمرے میں داخل ہوگا۔ لہٰذا بہتر اور شرعاً محفوظ طریقہ یہ ہے کہ تاجر یا تو کسی حقیقی صنعت کے ساتھ شراکت کا معاہدہ کرے تاکہ کام قانونی و شرعی حدود میں رہے، یا پھر جائز تجارتی بنیاد پر ہی مال درآمد کرے، کیونکہ ناجائز طریقوں سے حاصل ہونے والا نفع وقتی طور پر فائدہ مند نظر آتا ہے مگر اس میں نہ برکت ہوتی ہے نہ پائیداری۔

حوالہ جات

قااللہ تعالی:

وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ (البقرة: 188)

قال رسول اﷲ ﷺ:

من غشنا فلیس منا۔ (صحیح مسلم، کتاب الإیمان باب من غشنا فلیس منا، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۷۰(

وفی مشكاة المصابيح (3 / 1357):

وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عليكم بالصدق فإن الصدق يهدي إلى البر وإن البر يهدي إلى الجنة وما يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا. وإياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور وإن الفجور يهدي إلى النار وما يزال الرجل يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا» . متفق عليه.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

22/5/1447ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب