| 89242 | نماز کا بیان | سجدہ سہو کابیان |
سوال
اگر نماز میں بار بار کوئی لفظ دہرایا جائے اور مجموعی تکرار تین بار "سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى" کے برابر (تقریبا42حروف کے برابر) ہو جائے تو سجدۂ سہو لازم ہوتا ہے۔اب اگر گلے کی سوزش کی وجہ سے الفاظ صحیح طور پر ادا نہ ہو سکیں اور ثنا میں ایک دو الفاظ دہرائے جائیں، اور پھر الحمد شریف میں بھی چند الفاظ دہرائے جائیں، اور ثنا اور الحمد شریف میں دہرائے گئے الفاظ کی تعداد مجموعی طور پر 42حروف کے برابر ہو جائے، تو کیا اس صورت میں سجدۂ سہو لازم ہوگا؟اسی طرح اگر التحیات اور تشہد میں کچھ الفاظ دہرائے جائیں اور درود و دعا میں بھی کچھ الفاظ دہرائے جائیں، اور ان سب کی مجموعی تکرار تین بار "سبحان ربی الاعلیٰ" یعنی 42 حروف کے برابر ہو جائے، تو کیا سجدۂ سہو واجب ہوگا؟یا پھر سجدۂ سہو صرف اسی وقت لازم ہوگا جب صرف التحیات اور تشہد میں دہرائے گئے الفاظ کی مقدار 42حروف کے برابر ہو۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سورۃ الفاتحہ سے پہلےمقامِ ثناء ہےاور مقام ِثناء میں الفاظ کے دہرانے سے کوئی واجب مؤخر یا ترک نہیں ہوتااور نہ ہی سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے۔ البتہ اگر چار رکعتی فرض نماز میں کسی نےپہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ مکمل کرنےکےبعداس کے الفاظ کو اس قدر دہرایا کہ اس كامجموعہ تین بار " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى " کے برابر یعنی بیالیس (42) حروف تک پہنچ جائے، تو اس صورت میں سورت کو فاتحہ کے ساتھ ملانے میں تاخیر ہونے کی بنا پر سجدۂ سہو لازم ہوگا۔جبکہ سنن،وتر اور نفل ميں یہ حکم عام ہےہررکعت میں تکرار فاتحہ سے سجدہ سہوواجب ہوتاہے۔
تشہد کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ:
اگر قعدۂ اولیٰ میں امام یامنفرد تشہد کے الفاظ اس قدر دہرائے کہ وہ مقدار میں تین مرتبہ " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى " کے برابر (یعنی 42 حروف) ہوجائیں، تو تاخیرِ رکن ( قیام) لازم آنے کی وجہ سےسجدۂ سہو واجب ہوگا۔البتہ قعدۂ ثانیہ میں تشہد کی تکرار سے کسی رکن کی تاخیر لازم نہیں آتی اور چونکہ قعدہ ثانیہ بذات خود محلِ دعا و ثناء ہے، اس لیے یہاں تکرار کی وجہ سے سجدۂ سہو لازم نہیں ہوگا۔اسی طرح اگرمقتدی ایساکرےتواس پربھی کچھ واجب نہیں۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين :(1/ 460)
قوله وكذا ترك تكريرها إلخ) فلو قرأها في ركعة من الأوليين مرتين وجب سجود السهو لتأخير الواجب وهو السورة كما في الذخيرة وغيرها، وكذا لو قرأ أكثرها ثم أعادها كما في الظهيرية، أما لو قرأها قبل السورة مرة وبعدها مرة فلا يجب كما في الخانية واختاره في المحيط والظهيرية والخلاصة وصححه الزاهدي لعدم لزوم التأخير.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق :(2/ 105)
ولا يخفى ما فيه فالظاهر الأول ومنها لو كرر الفاتحة في الأوليين فعليه السهو لتأخير السورة ومنها لو تشهد في قيامه بعد الفاتحة لزمه السجود وقبلها لا على الأصح لتأخير الواجب في الأول وهو السورة وفي الثاني محل الثناء وهو منه وفي الظهيرية لو تشهد في القيام إن كان في الركعة الأولى لا يلزمه شيء وإن كان في الثانية اختلف المشايخ فيه، والصحيح أنه لا يجب اهـ.
المحيط البرهاني (1/ 505):
إذا كرر التشهد في القعدة الأولى فعليه سجود السهو، وإن كررها في القعدة الثانية فلا، ولا كذلك في سجود السهو في الأفعال بأن قام في موضع القعود، أو قعد في موضع القيام، أو سجد في موضع الركوع، أو ركع في موضع السجود، أو كرر الركن أو قدم الركن أو أخره.
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح: (ص251)
ويجب القيام إلى الركعة الثالثة من غير تراخ بعد" قراءة "التشهد" حتى لو زاد عليه بمقدار أداء ركن ساهيا يسجد للسهو لتأخير واجب القيام للثالثة.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري: (2/ 101)
إذا ترك من الفاتحة آية وجب عليه السجود وإن تركها في الآخرين لا يجب إن كان في الفرض وإن كان في النفل أو الوتر وجب عليه لوجوبها في الكل.
رشيدخان
دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی
18/جمادی الثانیۃ 1447ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | رشید خان بن جلات خان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |


