03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
رام جانے کہنے کا شرعی حکم اور ازالہ
89361ایمان وعقائدکفریہ کلمات اور کفریہ کاموں کابیان

سوال

السلام علیکم حضرت غلطی سے میرے منہ سے نکل گیا کہ رام جانے نعوذباللہ ۔اور میں نے استغفار بھی پڑھ رہا ہو اور کلمہ بھی پڑھا ہے۔کیا یہ جملہ بولنے سے بندہ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے اور ہمارے اعمال ضائع ہوگئے؟اس جرم کا ازالہ کیسے کریں گے یہ بتائیے گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

فیروز اللغات میں "رام" کا معنی پرمیشور یا پروردگار درج ہے۔ لہٰذا اس کا معنی تو شرکیہ نہیں ہے، تاہم اس کا استعمال ہندوؤں میں ہی رائج ہے جس سے اپنے آپ کو دور رکھنا لازم ہے۔ لہٰذا اس سے ایمان تو نہیں گیا، لیکن انتہائی نامناسب بات ہو گئی ہے۔ اپنے اس فعل پر سچے دل سے استغفار کریں اور آئندہ اس قسم کی غلطی سے بچنے کا بھرپور اہتمام کریں۔

حوالہ جات

رد المحتار(391/7)

وما كان خطأ من الألفاظ ولا يوجب الكفر فقائله يقرّ على حاله، ولا يؤمر بتجديد النكاح، ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك. وقوله احتياطاً أي يأمره المفتي بالتجديد ليكون وطؤه حلالاً باتفاق، وظاهره أنه لا يحكم القاضي بالفرقة بينهما، وتقدم أن المراد بالاختلاف ولو رواية ضعيفة ولو في غير المذهب.

 مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر(688/1)

وما كان خطأً من الألفاظ لا يوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولا يؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك.

ظہوراحمد

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

20جمادی الثانیہ 1447ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ظہوراحمد ولد خیرداد خان

مفتیان

شہبازعلی صاحب / فیصل احمد صاحب