| 89419 | اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائل | ملازمت کے احکام |
سوال
ہمارے دفتر کا وقت صبح 10 بجے سے شام 7 بجے تک ہے، مگر اکثر ملازمین لیٹ آتے ہیں، جیسے 10:15، 10:30 یا 11 بجے، جس سے ٹیم کے کام پر اثر پڑتا ہے۔ ہم یہ اصول بنانا چاہتے ہیں کہ: جو ملازم 10:15 کے بعد آئے، اس کی آدھے دن کی تنخواہ کٹ جائے۔ اور جو 10:30 کے بعد آئے، وہ پورا دن کام کرے مگر اس دن کی تنخواہ نہ ملے۔ کیا یہ طریقہ شرعاً جائز ہے؟ اگر نہیں، تو کیا یہ درست ہوگا کہ جو ملازم جتنی دیر لیٹ آئے، وہ اتنا ہی وقت شام میں بڑھا کر پورا کرے (مثلاً 15 منٹ لیٹ آئے تو 30 منٹ زیادہ کام کرے)؟کیا یہ طریقہ جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ملازم کا کسی ادارے میں کام کرنا بطور اجیر خاص ہوتاہے اور اجیر خاص وقت میں اپنے آپ کو کام کے لیے فراہم کرنے کی وجہ سے اجرت کا مستحق ہوتاہے۔لہذا کسی ملازم کا مقررہ وقت سے تاخیر کرنے کی وجہ سے ادارہ کو اس کی تنخواہ میں اسی کے بقدر کمی کا اختیار حاصل ہے، اس سے زیادہ کی کٹوتی کرنا تعزیر بالمال(مالی جرمانہ ) ہونے کی وجہ سے جائز نہیں۔لہذا سوال میں ذکر کردہ مجوزہ صورت اور اس کی متبادل صورت درست نہیں۔ البتہ ادارہ ملازمین کی عدم تاخیر سے بچنےکے لیے یہ پالیسی اپنائےکہ دن کے پہلے آدھے گھنٹہ کی اجرت دوسرے اوقات کے بنسبت تھوڑی زیادہ مقرر کرے اور یہ قاعدہ متعارف کروایا جانے پرجو ملازم تاخیر سے آئے ان کی تنخواہ سے وہ اجرت کاٹی جائے۔ واضح رہےکہ عام طور پر عرف میں ملازم کی پانچ سے دس منٹ تک کی تاخیر میں تسامح کیا جاتا ہے ۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية» (4/ 500):
"والأجير الخاص من يكون العقد واردا على منافعه ولا تصير منافعه معلومة إلا بذكر المدة أو بذكر المسافة." كذا في التبيين.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 33):
"(والخاص يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم) يعني الأجير الخاص يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة عمل أو لم يعمل... ولأن منافعه صارت مستحقة للغير والأجر مقابل بها فيستحقه ما لم يمنع مانع من العمل كالمرض والمطر ونحو ذلك مما يمنع التمكن."
رد المحتار ط : الحلبي (6/ 70):
(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة.
رد المحتار ط: الحلبي (4/ 61):
مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله: لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ...وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي... والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال.
محمد جمال
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
21/جمادی الثانیہ/1447ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد جمال بن جان ولی خان | مفتیان | شہبازعلی صاحب / فیصل احمد صاحب |


