| 88946 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسائل کے بارےمیں کہ
میرا ایک دوست ہے، جس کانام صابرہے،وہ ہماری کمیونٹی میں رہتا ہے۔ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے، اور یہ طلاق شرعی طریقے سے ہوئی ہے۔ اس کے دو بچے ہیں، جو ابھی چھوٹے اور بہت پیارے ہیں۔ صابر نے ہمارے ایک دوسرے دوست اسامہ کو بتایا کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے، اب وہ سخت شرمندہ ہے، لیکن بچوں کی خاطر وہ "حلالہ" کروانا چاہتا ہے۔ وہ کہنے لگا: "آپ حلالہ کر دیں تاکہ بچے محروم نہ ہوں۔" یہ بات صابر اور اس کی بیوی نے باہمی مشورے سے کی، تاکہ بچوں کی زندگی خراب نہ ہو۔
اب اسامہ میرے پاس آیا اور اس نے بات عام انداز میں کی، یہ نہیں بتایا کہ معاملہ صابر کا ہے۔ اس نے کہا کہ "اگر کسی مرد نے بیوی کو طلاق دے دی ہو، اور اب وہ دونوں دوبارہ ملنا چاہتے ہوں تو کیا حلالہ کروایا جا سکتا ہے؟" میں نے اسے سمجھایا کہ اگر طلاقیں مکمل ہو چکی ہیں تو اب رجوع ممکن نہیں، اور اگر کوئی "پری پلان حلالہ" کرے یعنی صرف سابق شوہر سے دوبارہ نکاح کرانے کی نیت سے نکاح کرے، تو یہ حرام ہے، ناجائز ہے، اور اس پر لعنت کی گئی ہے۔ میں نے کہا: "آپ انکار کر دیں۔" چنانچہ اسامہ نے انکار کر دیا۔
کچھ دنوں بعد اسامہ پر کافی دباؤ ڈالا گیا۔ وہ دوبارہ میرے پاس آیا اور بتایا کہ یہ کام دراصل صابر کرنا چاہتا ہے، اور مجھ سے کہہ رہا ہے کہ ہماری مدد کرو۔ میں نے پھر اسے صاف الفاظ میں کہا کہ میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ ایسا کرنا سخت حرام اور گناہ ہے۔
کچھ دن بعد اسامہ نے بتایا کہ اب صابر اور اس کی بیوی دونوں اُس سے کہہ رہے ہیں کہ بچوں کی خاطر ہماری مدد کرو۔ وہ مجھ سے کہنے لگا کہ "وہ لوگ بہت پریشان ہیں، آپ ہی کوئی حل نکالیں۔" میں نے کہا: "نہیں، میں یہ نہیں کر سکتا۔"
میں نے اس سے پوچھا: "یہ بات تمہیں صابر نے کہی ہے کہ جاؤ اور مولانا عبدالعزیز سے کہو کہ وہ کریں؟"اس نے کہا: "نہیں، یہ میں اپنی طرف سے کہہ رہا ہوں۔"کچھ دن بعد اسامہ پھر آیا اور کہنے لگا: "جب میں ان کے بچوں کو دیکھتا ہوں تو دل دکھتا ہے۔ آپ کچھ کر لیں۔"طلاق کی عدت بھی گزر چکی ہے، اور یہ بات صرف مجھے اور اسامہ کو معلوم ہے۔ اب میں آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں کہ میں کیا کروں؟یہ بات میاں بیوی نے پچھلے چار مہینوں سے سب سے چھپائی ہوئی ہے۔ کسی کو اب تک احساس نہیں ہوا۔ دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں، لیکن مرد الگ کمرے میں اور عورت الگ کمرے میں۔ صابر روتا بھی ہے اور کہتا ہے کہ "مجھ سے غلطی ہوئی، مجھے سمجھ نہیں آئی۔"یہ دونوں (میاں بیوی) بچوں کی وجہ سے اور کمیونٹی میں بدنامی کے خوف سے یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ "خفیہ طور پر حلالہ کرایا جائے" تاکہ کوئی بات باہر نہ نکلے۔اب میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ میں حلالہ کی نیت سے اس عورت سے نکاح کر لوں، لیکن ایسا طریقہ اختیار کروں کہ نہ عورت کو علم ہو کہ میں یہ نیت رکھتا ہوں، اور نہ پہلے شوہر کو پتا ہو کہ میں یہ نکاح حلالہ کی نیت سے کر رہا ہوں۔ یعنی میں دل میں نیت رکھوں، مگر ظاہر میں عام نکاح کی طرح ہو۔لیکن کچھ باتیں ہیں جو مجھے روک دیتی ہیں:
1. میں عبدالعزیز ہوں اور یہاں کوریا میں امام کے فرائض انجام دیتا ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس سے میری امامت کو نقصان نہ پہنچے، یا لوگ بدعملی کا الزام نہ لگا دیں۔
2. میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔ اگر میں اس عورت سے نکاح کروں، تو ایسا نہ ہو کہ وہ عورت بعد میں کہہ دے کہ "میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں، طلاق نہیں لوں گی"، اور اگر میں طلاق دوں تو کہیں ہنگامہ یا شور نہ مچ جائے۔
3. اگر میں طلاق دے دوں اور پہلا شوہر (صابر) دوبارہ نکاح سے انکار کر دے تو پھر کیا ہوگا؟ عورت کی زندگی تباہ ہو جائے گی، وہ پاگل ہو سکتی ہے، اور پورے علاقے میں شرمندگی ہوگی۔
4. کل کو جب میں اپنی مستقل شادی کروں گا، اگر یہ عورت کچھ بات پھیلا دے یا میری بیوی کے سامنے کوئی الزام لگا دے تو کیا ہوگا؟
5. اگر کمیونٹی میں کسی کو یہ بات معلوم ہو گئی تو میری عزت، امامت اور مقام کا کیا ہوگا؟
6. اگر مباشرت کے بعد وہ عورت اپنے پہلے شوہر کو پوری بات بتا دے، یا میرا نام لے لے، یا معاملہ تفصیل سے بیان کر دے تو پھر کیا ہوگا؟
7. مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دونوں (صابر اور اس کی بیوی) کہہ رہے ہیں کہ "اگر نکاح صحیح طریقے سے نہ ہوا تو ہم کسی اور سے سیدھا حلالہ کروا لیں گے، بس مقصد یہی ہے کہ حلالہ ہو جائے" جو سراسر لعنت والی بات ہے۔اب میں سخت الجھن میں ہوں۔مجھے مشورہ دیں کہ
کیا میں یہ کام کر لوں یا نہیں؟اگر کر لوں تو کس طرح کروں کہ بات نہ پھیلے؟اور کیا اس سے میری امامت اور عزت کو نقصان پہنچ سکتا ہے؟اور ایسا کون سا طریقہ ہوگاکہ معاملہ آسانی سے اور خاموشی کے ساتھ مکمل ہو جائے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں اگر صابر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو تینوں واقع ہوکر حرمتِ مغلّظہ ثابت ہوگئی ہے۔ اب موجودہ حالات میں حلالہ کے بغیر میاں بیوی نہ رجوع کرسکتے ہیں اور نہ ہی نیا نکاح کرسکتے ہیں۔
حلالہ یہ ہے کہ عدّت (تین حیض) گزرنے کے بعد مذکورہ خاتون اپنی آزادی اور مرضی سے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے، اور ہمبستری کے بعد وہ اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا وہ شوہر فوت ہوجائے، پھر عورت عدّتِ طلاق/ وفات گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔
البتہ اگر دوسرے شوہر سے نکاح کے وقت عقد کے اندر ہی طلاق کی شرط رکھی جائے تو ایسا حلالہ ناجائز اور حدیث کی رو سے موجبِ لعنت ہے، لہٰذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ اگر عقد کے اندر شرط نہ ہو بلکہ صرف دل میں طلاق کا ارادہ ہو، تو یہ گناہ نہیں ہے۔ بالخصوص جب نیت شہوت پوری کرنے کے بجائے تعاون اور ایک مسلمان بھائی کا گھر بسانےکا ہو، تو بعض فقہاء نے اسے باعثِ اجر بھی قرار دیا ہے۔
البتہ مشورۃً عرض ہے کہ چونکہ امام ایک حساس دینی عہدے پر فائز ہوتا ہے، اور اس طرح کے معاملات میں شامل ہونے سے بدنامی کا خطرہ اور امامت سے محرومی کا اندیشہ ہے، اس لیے مناسب یہ ہے کہ صورتِ مسئولہ میں امام عبدالعزیز خود اس عمل سے دور رہیں، اور اسامہ کو صحیح طریقہ سمجھاکر اس کام سے نہ روکیں۔ ورنہ دیارِ غیر (کوریا) میں میاں بیوی کے غلط راستے پر چل نکلنے کا خطرہ موجود رہے گا۔
حوالہ جات
وفی الفتاوى الهندية - (ج 10 / ص 196)
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز .أما الإنزال فليس بشرط للإحلال.
وفی أحكام القرآن للجصاص ج: 5 ص: 415
قوله تعالى: {فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَهُ} منتظم لمعان: منها تحريمها على المطلق ثلاثا حتى تنكح زوجا غيره، مفيد في شرط ارتفاع التحريم الواقع بالطلاق الثلاث العقد والوطء جميعا; لأن النكاح هو الوطء في الحقيقة، وذكر الزوج يفيد العقد، وهذا من الإيجاز واقتصار على الكناية المفهمة المغنية عن التصريح. وقد وردت عن النبي صلى الله عليه وسلم أخبار مستفيضة في أنها لا تحل للأول حتى يطأها الثاني، منها حديث الزهري عن عروة عن عائشة: أن رفاعة القرظي طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت: يا نبي الله إنها كانت تحت رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات فتزوجت بعده عبد الرحمن بن الزبير وإنه يا رسول الله ما معه إلا مثل هدبة الثوب فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال: "لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة؟ لا حتى تذوقي عسيلته ويذوق عسيلتك".
وفی الدر المختار (3/ 414)
(وكره) التزوج للثاني (تحريما) لحديث «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك(وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط فلا يجبر على الطلاق كما حققه الكمال، خلافا لما زعمه البزازي.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 415)
(أما إذا أضمر ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورا) لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 415)
(قوله: لقصد الإصلاح) أي إذا كان قصده ذلك لا مجرد قضاء الشهوة ونحوها.
فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 181)
(قوله بشرط التحليل) أي بأن يقول تزوجتك على أن أحلك له أو تقول هي ذلك فهو مكروه كراهة التحريم المنتهضة سببا للعقاب لقوله - صلى الله عليه وسلم - «لعن الله المحلل والمحلل له» أما لو نوياه ولم يقولاه فلا عبرة به ويكون الرجل مأجورا لقصده الإصلاح.
البناية شرح الهداية (5/ 481)
وفي الإسبيجابي: لو تزوجها بنية التحليل من غير شرط حلت للأول، ولا يكره، والنية ليست بشيء. وقال بعض مشايخنا: لو تزوجها ليحللها للأول، فهو مثاب مأجور في ذلك، حكاه المرغيناني وغيره،
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (2/ 259)
قال - رحمه الله - (وكره بشرط التحليل للأول) أي يكره التزوج بشرط أن يحلها له يريد به بشرط التحليل بالقول بأن قال تزوجتك على أن أحلك له أو قالت المرأة ذلك. وأما لو نويا ذلك في قلبهما ولم يشترطاه بالقول فلا عبرة به ويكون الرجل مأجورا بذلك لقصده الإصلاح،
مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (1/ 439)
يكره التزوج بشرط التحليل بالقول بأن قال تزوجتك على أن أحللك له أو قالت المرأة ذلك لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لعن الله المحلل والمحلل له» أما لو نويا ذلك بقلبهما ولم يشترطا بقولهما فلا عبرة به وقيل الرجل مأجور بذلك وتأويل اللعن إذا شرط الأجر
العناية شرح الهداية (4/ 181)
(ولو تزوجها بشرط التحليل) بأن قال تزوجتك على أن أحلك أو قالت المرأة ذلك (فالنكاح مكروه لقوله - عليه الصلاة والسلام - «لعن الله المحلل والمحلل له» ) فإن محمله اشتراط التحليل في العقد كما ذكرنا، إذ لو أضمر ذلك في قلبه لم يستحق اللعن.
سیدحکیم شاہ عفی عنہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید
19/05/1447ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب |


