03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
متعنت شوہر سے خلاصی کا طریقہ
80143طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ میری عمر28 سال ہے، پچھلے سال مئی 2022 میں میری شادی ہوئی، میرے خاوند دبئی کے رہنے والے تھے، وہ شادی کے لیے پاکستان آئے اور چھ دن میرے ساتھ گزار کر واپس دبئی چلے گئے یہ کہہ کر کہ میں ایک ماہ بعد تمہیں لینے آوں گا اور ہم دبئی شفٹ ہوجائیں گے،بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یہ شخص پہلے سے شادی شدہ ہیں اور انہوں نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے، اس کے بعد  میرے شوہر نے مجھ سے ناجائز مطالبات کیے کہ تمہیں میرے ساتھ دبئی چل کر میری مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ہوگی، جس طرح انگریزوں کا(بے ہودہ) لباس، رہن سہن ہے وہ اختیار کرنا ہوگا، جس کا میں نےانکار کیا تو وہ مجھ سے ناراض ہوگئے اور انہوں نے مجھے سےموبائل فون پر بھی بات چیت کرنا چھوڑ دی اوراب پچھلےتقریبا ایک سال سے میں اپنی والدہ کے گھر ہوں، نہ وہ مجھ سے بات کرتے ہیں، نہ مجھے ساتھ لے جاتے ہیں اور نہ ہی خرچہ دیتے ہیں۔ ان حالات میں تنگ آکر میں نے کہا کہ مجھے طلاق دے دو تو انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ کورٹ جا کر خود لے لو ،میں نہیں دوں گا ،مجھے میسیج مت کرنا،میں نے جواب میں کہا کہ آپ اگر مہر دینے سے بچنا چاہتے ہیں تو میں وہ بھی معاف کرنے کو تیار ہوں آپ بس مجھے طلاق دے دیں، لکھ کر نہیں دیتے تو کم از کم زبانی ہی دے دیں ۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں کورٹ کے ذریعہ خلع لے لوں ،لیکن کورٹ سے خلع لینے کی صورت میں مجھے میرے کچھ جاننے والوں نے بتایا کہ شرعا خلع نہیں ہوتی اور بیوی بدستور شوہر کے نکاح میں باقی رہتی ہے، اب میں اپنے اس شوہر سے علیحدگی چاہتی ہوں، لیکن وہ مجھے نہ طلاق دیتے ہیں، نہ ساتھ رکھتے ہیں اور نہ ہی خرچہ دیتے ہیں،میں اس وقت اپنی والدہ کے گھر ہوں اور صرف میں اور میری والدہ ساتھ رہتے ہیں، والد صاحب کا انتقال ہوگیا اور باقی بھائی سب الگ الگ رہتے ہیں۔ برائے کرم اس مشکل میں مجھے شرعی راستہ بتائیے جس کے ذریعہ سے مجھے اس شخص سے چھٹکارا حاصل ہو اور میں نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کرسکوں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر واقعۃ شوہر گناہوں پر مجبور کرتا ہےاور بات نہ ماننے پر خرچہ بند کردیتا ہے اور اپنے پاس رکھنے سے انکار کرتا ہےتو اول دونوں طرف کے خاندانوں کے جن ذرائع کے توسط سے نکاح ہوا ہے، انہیں کے ذریعہ سے مرد کو طلاق یا خلع پر آمادہ کیا جائے ، اگر وہ  طلاق یا خلع پر آمادہ نہ ہو اور نہ ہی حقوق زوجیت ادا کرے اور نہ ہی اخراجات دیتا ہو اور عورت کی کفالت کاکوئی دوسرا متبادل بندوبست بھی نہ ہوسکے یا عورت کو اپنی عزت بچانا مشکل ہورہا تو وہ کسی مسلمان جج کی عدالت میں پیش ہوکر اپنا مقدمہ پیش کرے اور اپنا دعوی دلائل یعنی شرعی گواہی سے ثابت کرے، عدالت پہلے شوہر کو حقوق کی ادائیگی یا طلاق دینےکا نوٹس جاری کرے، اگر شوہر کسی بات پر آمادہ نہ ہو تو عدالت فورا (بلا انتظار مدت) نکاح فسخ کردے گی اور  مالکیہ کے راجح قول کے مطابق یہ فسخ بحکم طلاق رجعی ہوگی،لہذا  اگرشوہر عدالت کے فیصلہ کے بعدعدت کےاندردوبارہ آمادہ ہوجائے تو اسے رجوع کا اختیار ہوگا، البتہ تجدید نکاح بہتر ہے۔

واضح رہےکہ اگرچہ خلع کےلیےمردکی رضامندی ضروری ہےاوراس کےبغیرعدالت کایک طرفہ فیصلہ معتبر نہیں،لیکن سؤال میں  مذکورصورت حال میں اگرعورت  عدالتی فیصلہ سے پہلے اپنے دعوی پرشرعی گواہی قائم کرکے عدالت سے فیصلہ وصول کرلے تو ایسی صورت میں یہ فیصلہ بطور فسخ نکاح کے معتبر ہوگا،اگرچہ عدالت نے خلع کے نام سے ڈگری جاری کی ہو۔

حوالہ جات

 وفی الحیلۃ الناجزۃ:ص۱۸۶(تحت  عنوان الفتاوی المالکیۃ "الجواب من العلامۃ الصالح التونسی)

۔۔۔(س) اذا فسخ النکاح بین من ذکر علی الوجہ المقر المعتبر شرعا ثم عاد المفقود او ایسر المعسر او طاع المتعنت فما حکم المراۃ حینئذ؟۔۔۔

۔۔۔ اذا فسخ النکاح علی الوجہ المقرر المعتبر شرعا  فی حق من ذکر ثم عاد المفقود او ایسر المعسر او طاع المتعنت فان کان ذالک فی العدۃ رجعت الزوجۃ لزوجھا مطلقا لکون الطلاق رجعیا لم تفصل فیہ العصمۃ حسب المقاعدۃ المقررۃ من ان کل طلاق اوقعہ الحاکم فھو بائن الا طلاق المولی و المعسر وسواء اوقعہ الحاکم بالفعل او جماعۃ المسلمین او امرلھا بہ علی حسب مایاتی  ولقول خلیل ولہ الرجعۃ ان وجد فی العدۃ یسارا یقوم بواجب مثلھا الشامل المعسر والغائب المطلقۃ علیہ من اجل النفقۃ من باب اولی کماتبین لک بعدالخ

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

 ۲۷شوال۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب