021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی کا واقعہ
80383حدیث سے متعلق مسائل کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

بالوں کو بنانے سنوارنے اور کنگھی پھیرنے والی عورت کو مشا طہ کہا جاتاہے۔ فرعون نے اپنے اہل خانہ کی خدمت کیلئے ایک مشاطہ رکھی ہوئی تھی۔ آج کل کی اصطلاح میں اسے بیوٹی میکر کہا جاسکتاہے۔ فرعون کے اہل خانہ کی مشاطہ فرعون کو نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کو اپنارب مانتی تھی۔ معراج کے موقع پر ایک جگہ رسول اللہ نے بڑی خوشگوار مہک محسوس کی۔ آپ نے جبریل ؑ سے پوچھا: ’’جبریل! یہ کیسی خوشگوار مہک ہے؟‘‘ حضرت جبریل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ فرعون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کرنے والی خاتون اور اس کی اولاد کی خوشبو ہے۔ رسالت مآب نے پوچھا: ’’اس خاتون کا کیا قصہ ہے؟‘‘ حضرت جبریل ؑ نے بتایا کہ ایک دن وہ فرعون کی بیٹی کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔ اچانک اس کے ہاتھ سے کنگھی گر پڑی تو وہ بے ساختہ بولی: ’’بسم اللہ۔ ‘‘ فرعون کی بیٹی نے اس سے پوچھا: اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا تمہاری مراد میرے باپ کے نام سے ہے؟ اس خاتون نے جواب دیا: ’’ نہیں، بلکہ میرا اور تیرے باپ کا رب اللہ ہے۔ ‘‘ فرعون کی بیٹی نے یہ سن کر کہا: میں تمہاری یہ بات اپنے باپ (فرعون) کو بتاؤں گی۔ اس خاتون نے کہا: ’’ٹھیک ہے (جاؤبتادو)۔ ‘‘ چنانچہ اس نے یہ بات اپنے باپ سے کہہ دی۔ فرعون طیش میں آگیا۔ اُس نے فوراً اس خاتون کو اپنے دربار میں طلب کیا اور اس سے پوچھا: اے عورت! تیرا میرے سوا بھی کوئی رب ہے؟۔ اس خاتون نے انتہائی جرأت و شجاعت سے جواب دیا: ’’ ہاں، میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ ‘‘ یہ جواب سن کر فرعون نے تانبے کی ایک بڑی دیگ میں تیل(یا پانی) کھولانے کا حکم دیا۔ جب یہ دیگ خوب تپ گئی تو فرعون نے حکم دیا کہ اس خاتون کو اور اس کی اولاد کو اس میں ڈال دیا جائے۔ خاتون نے فرعون سے کہا: ’’ میری تجھ سے ایک درخواست ہے۔‘‘ فرعون نے پوچھا: کیا درخواست ہے؟ خاتون نے کہا: ’’میں یہ پسند کرتی ہوں کہ تو میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک ہی کپڑے میں جمع کر کے ہمیں یکجا دفن کر دینا۔ فرعون بولا: یہ تیرا ہم پر حق ہے۔ پھر فرعون کے حکم پر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بچوں کو ایک ایک کرکے کھولتی ہوئی دیگ میں ڈال دیا گیا۔ آخر میں اس کا ایک شیرخوار بچہ باقی رہ گیا، اس خاتون کو اس بچے سے بے حد پیار تھا۔ وہ اپنے اس بچے کی وجہ سے جھجک کر ذرا پیچھے ہٹی تو وہ شیر خوار بچہ بول اٹھا: ’’اماں جان! بے خوف و خطر اس میں کود جایئے۔ بے شک دنیا کی سزا آخرت کے عذاب کے مقابلے میں کہیں ہلکی ہے۔‘‘ چنانچہ وہ خاتون اس کھولتی دیگ میں بے خطر کود پڑی۔ اُس بچے کو چھینا) تو وہ گھبرائی( تو اللہ تعالیٰ نے دُودھ پیتے بچے کو گویائی عطا فرمائی)۔ اُس نے (اپنی ماں سے) کہا امی جان اَفسوس نہ کریں بلکہ (آگ میں) ڈال دیں کیونکہ دنیا کا عذاب ،آخرت کےعذاب سے بہت ہلکا ہے، تب (ماں نے بچے کوآگ میں) ڈال دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ چارچھوٹے بچوں نے بات کی وہ یہ ہیں۔ (1)عیسی بن مریم علیہ السلام(2)صاحب جریج(3)یوسف کی گواہی دینے والا(4)فرعون کی بیٹی کی مشاطہ کا بیٹا تخریج: أخرجه الإمام أحمد في " المسند " (1/309) ، والطبراني (12280) ، وابن حبان (2903) ، والحاكم (2/496) روایت کا درجہ: *امام ذھبی نے اسےحسن الاسناد کہا ہے (العلو:80) *ابن کثیر ؒ نے کہا: " إسناده لا بأس به " (التفسیر 3/15) * مسند کی تعلیق میں علامہ احمد شاکر نے بھی اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے (4/295) *الأرنؤوط نے مسند کی تخریج میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ((5/30 – 31 رقم 2821) یہ واقعہ مستند ہے اوریہ تحقیق صحیح ہے؟ کیا اس واقعہ کو بیان کیاجاسکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ واقعہ سند کے لحاظ سےبہت سےمحدثین کےہاں صحیح  ہے،جیساکہ سؤال میں مذکورہے،البتہ اس روایت کامدارعطاءبن سائب پرہے،جس کوآخرعمرمیں اختلاط ہوگیاتھا،اس لیےبعض محققین  جیسےعلامہ البانی وغیرہ نےاس روایت میں توقف کاموقف اختیار کیاہے۔اس روایت کے بعض مندرجات  الفاظ کے اختلاف کے ساتھ صحاح  میں منقول ہیں۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۳ذیقعدہ۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب