03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ماؤں کے “دودھ بینک”قائم کرنا
65122رضاعت کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

کافی عرصہ سے مغربی ممالک میں کچھ کمپنیاں ملک بینک (Milk bank)کے نام سے کام کرہی ہےجن کا طریقہ کا ریہ ہے کہ وہ ایسی خواتین سے جن کے بچے پیدائش کے بعد ہی فوت ہوگئےہوں یا ایسی خواتین جو کسی بھی ضرورت کی وجہ سے اپنا دودھ دینا چاہتی ہوں تو یہ کمپنیاان سے قیمتاًیابلاقیمت دودھ حاصل کرکےاس دودھ کو ایک جگہ یا الگ الگ طورپر مختلف کیمیائی عملوں سے گزارکرپھر اس کی پیکنگ کرتی ہیں اوراس کے بعد اس کو  مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کرتی ہے،پھر بعض اوقات یہ دودھ اسی مائع وسیال شکل میں پیک کیا جاتاہے جبکہ بعض اوقات اسے مشینوں کے ذریعے مادہ شکل میں تبدیل کرکے پھر اس سے خشک دودھ(Powder) تیارکرکے فروخت کے لیے پیش کیاجاتاہے اوریہ پاوڈر بھی بعض اوقات خالص دودھ کا ہوتاہے، جبکہ بعض اوقات اس میں دیگراجزاء شامل کئے جاتے ہیں جن کی مقدارکبھی دودھ کی مقدار سے زیادہ اورکبھی کم ہوتی ہے یہ طریقہ پہلے پورپ میں شرع ہوا اورپھر یورپ سے چلتے چلتے اب عرب ممالک میں بھی پھیلتاجارہاہے اورمصر وغیر میں "بنک اللبن" کے نام سے کئی ادارے کام بھی کررہے ہیں ،چھاتیوں میں دودھ کی موجود گی جبکہ دودھ پینے ولابچہ نہ ہوخواتین کے لیے کافی تکلیف دہ مرحلہ ہوتاہے ،بلکہ اطباء کے نزدیک ایسی صورت میں چھاتی کے کینسرکے خطرات بھی ہوسکتےہیں  اس لیے دودھ کا اخراج لازمی ہوتاہے جس کے لیے فی زمانہ مختلف آلات یا پمپ وغیرہ بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ دودھ  کا اخراج کیا جاتاہے مذکورہ بالاتمام صورت ِحال کے پیش ِنظر اب یہ پوچھناہے کہ

کیاایسے ملک بینک(Milk bank) قائم کرنا شرعاً جائز ہے جن  میں ماؤں کا دودھ جمع کیا جائے اوربوقتِ ضرورت ان کو استعمال میں لایاجائے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

           اسلام نے اس بات کی تو اجازت دی ہے کہ بچےکو بوقتِ ضرورت والدہ کے علاوہ  کسی اورعورت کا دودھ پلایا جائے،تاہم چونکہ اس سے رضاعت کا رشتہ بھی قائم ہوجاتاہےجس سے نکاح کے جواز اورعدم جواز پر فرق پڑتاہے،اس لیے اس مقصد کے لیے ماؤں کے "دودھ بینک"قائم کرناجائز نہیں،کیونکہ اس طرح کرنےسے تو کسی کوبھی پتہ نہیں چلےگا کہ کس بچے نے کس ماں کادودھ پیا ہے اوراس طریقے سے رشتہ رضاعت کی پہچان انتہائی مشکل ہوجائے گی،اورحرام حلال کا پتہ نہیں چلےگا،لہذا بوقت ِضرورت بچے کو دودھ پلانےکے لیے سادہ اسلامی طریقوں پر عمل کیاجائےجودرجِ ذیل ہیں :

(1)کسی دوسری عورت سے دودھ پلوایا جائے خواہ وہ اجرت پر پلائے یا بلا اجرت ۔چنانچہ عرب معاشرے  میں خاص کر اس کا رواج تھا خود جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثوبیہ اور حضرت حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیااور اسلام کی تشریف آوری کے بعد بھی اس طریقے کو برقرار رکھا گیا اور خود قرآنِ حکیم نے بھی اس طرف رہنمائی فرمائی چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:
    وإن أردتم أن تسترضعوا أولادکم فلا جناح علیکم إذا سلمتم ما آتیتم بالمعروف(البقرہ:٢٣٣)  ترجمہ:اگر تم چاہو کہ  دائیوں  سے اپنے بچوں کہ دودھ پلواؤتو بھی تم پر کوئی مضائقہ نہیں، جبکہ جو دینا مقرر ہوا بھلائی کے ساتھ انہیں ادا کرو۔قرآنِ کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے: وإن تعاسرتم فسترضع لہ أخری (الطلاق:٦)ترجمہ:اور اگر تم دونوں دشواری محسوس کرو تو کوئی دوسری عورت دودھ پلادے ۔

(2)کسی حلال جانور جیسے: بکری وغیرہ کا دودھ پلایا جائے ،آج کے دور میں بھی  یہ طریقہ مفید و مؤثر اور معمول بہ ہے ۔

    (3)کسی ماہر ڈاکٹر کی تجویز پر ایسے بچوں کو ڈبے کا دودھ پلایا جائے، آج کل دنیا میں ایسے بچوں کے لیے یہی طریقہ رائج ہے۔

    یورپ میں کچھ برسوں سے ماں کے دودھ کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے ورنہ آج سے ٢٠/٢٥برس پہلے سارا یورپ ڈبے کے دودھ پر پل رہا تھا۔

            یہ تینوں طریقے سادے اور قابل عمل ہیں ان میں کوئی شرعی دشواری نہیں، جبکہ شیرِ مادر بینک میں بہت سی شرعی دشواریاں موجود ہیں ، لہذا اس مقصد کے لیے ماؤں کے "دودھ بینک"قائم کرنے جیسے خالص مغربی طریقوں سے مکمل گریزکیاجائے۔

حوالہ جات

والواجب علی النساء أن لا یرضعن کل صبي من غیر ضرورۃٍ، وإذا أرضعن فلیحفظن ذٰلک ولیشہرنہ ویکتبنہ احتیاطًا۔ (شامي ۴؍۲۹۶ بیروت، ۴؍۴۰۲ زکریا، البحر الرائق ۳؍۲۲۲ زکریا، الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۳۴۵ زکریا، مسائل بہشتی زیور ۵۰۴)

قرارالمجمع الفقہ الاسلامی الدولی بشأن بنوك الحليب قرار رقم: 6 (6/2)

إن مجلس مجمع الفقه الإسلامي الدولي المنبثق عن منظمة المؤتمر الإسلامي في دورة انعقاد مؤتمر الثاني بجدة من 10 – 16 ربيع الآخر 1406هـ الموافق  22 – 28 كانون الأول ( ديسمبر ) 1985م، بعد أن عرض على المجمع دراسة فقهية، ودراسة طبية حول بنوك الحليب، وبعد التأمل فيما جاء في الدراستين ومناقشة كل منهما مناقشة مستفيضة شملت مختلف جوانب الموضوع وتبين منها:

أولاً:      أن بنوك الحليب تجربة قامت بها الأمم الغربية، ثم ظهرت مع التجربة بعض السلبيات الفنية والعلمية فيها فانكمشت وقل الاهتمام بها.

ثانياً:      أن الإسلام يعتبر الرضاع لحمة كلحمة النسب يحرم به ما يحرم من النسب بإجماع المسلمين. ومن مقاصد الشريعة الكلية المحافظة على النسب، وبنوك الحليب مؤدية إلى الاختلاط أو الريبة.

ثالثاً:      أن العلاقات الاجتماعية في العالم الإسلامي توفر للمولود الخداج أو ناقص الوزن أو المحتاج إلى اللبن البشري في الحالات الخاصة ما يحتاج إليه من الاسترضاع الطبيعي، الأمر الذي يغني عن بنوك الحليب.

قرر ما يلي:

أولاً:      منع إنشاء بنوك حليب الأمهات في العالم الإسلامي.

ثانياً:      حرمة الرضاع منها. (مجلة المجمع (العدد الثاني، ج1: ص: 383)

اِس بارے میں اِسلامک فقہ اَکیڈمی کے چوبیسویں فقہی سیمینار (منعقدہ ۱-۳؍مارچ ۲۰۱۵ء  بمقام کیرالہ) نے درج ذیل اَلفاظ میں تجویز منظور کی ہے، ملاحظہ ہو:

’’اِنسانی دودھ کا بینک قائم کرنا جائز نہیں، اگر بینک قائم ہو، تو اُس میں دودھ جمع کرنا اور اُس میں کسی طرح کا تعاون کرنا بھی جائز نہیں ہے‘‘۔

وفی المبسوط  لمحمد بن أحمد بن أبي سهل السرخسي                    :                    

باب إجارة الظئر . قال : رحمه الله الاستئجار للظئورة جائز لقوله تعالى { فإن أرضعن لكم فآتوهن أجورهن  }والمراد بعد الطلاق وقال الله تعالى { ، وإن تعاسرتم فسترضع له أخرى } يعني بأجر وبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس يتعاملونه فأقرهم عليه وكانوا عليه في الجاهلية وقد استؤجر لإرضاع رسول الله صلى الله عليه وسلم حليمة وبالناس إليه حاجة ; لأن الصغار لا يتربون إلا بلبن الآدمية والأم قد تعجز عن الإرضاع لمرض ، أو موت ، أو تأبى الإرضاع فلا طريق إلى تحصيل المقصود سوى استئجار الظئر جوز ذلك للحاجة ، وزعم بعض المتأخرين رحمهم الله أن المعقود عليه المنفعة ، وهو القيام بخدمة الصبي وما يحتاج إليه وأما اللبن فتبع فيه ; لأن اللبن عين والعين لا تستحق بعقد الإجارة كلبن الأنعام ، والأصح أن العقد يرد على اللبن ; لأنه هو المقصود وما سوى ذلك من القيام بمصالحه تبع والمعقود عليه هو منفعة الثدي [ ص: 119 ] فمنفعة كل عضو على حسب ما يليق به وهكذا ذكر ابن سماعة عن محمد رحمهما الله ; فإنه قال : استحقاق لبن الآدمية بعقد الإجارة دليل على أنه لا يجوز بيعه وجواز بيع لبن الأنعام دليل على أنه لا يجوز استحقاقه بعقد الإجارة 
وقد ذكر في كتاب أنها ، لو ربت الصغير بلبن الأنعام ، لا تستحق الأجر وقد قامت بمصالحه فلو كان اللبن تبعا ولم يكن الأجر بمقابلته لاستوجبت الأجر ، ثم بدأ الباب بحديث زيد بن علي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم { لا ترضع لكم الحمقاء فإن اللبن يفسد } وهو كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن اللبن في حكم جزء من عينها ; لأنه يتولد منها فتؤثر فيه حماقتها ويظهر أثر في ذلك الرضيع لما للغذاء من الأثر ، ونظيره ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : { لا ترضع لكم سيئة الخلق )

 قال اللہ تعالی :

وإن أردتم أن تسترضعوا أولادکم فلا جناح علیکم إذا سلمتم ما آتیتم بالمعروف(البقرہ:٢٣٣)

وإن تعاسرتم فسترضع لہ أخری (الطلاق:٦)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (3 / 238)

وأمہاتکم اللاتی أرضعنکم وأخواتکم من الرضاعۃ (النسائ:٢٢)

وفی الحدیث:

یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من الولادۃ،رواہ البخاری (مشکوۃ شریف ،ص ٢٧٣،قدیمی)

سید حکیم شاہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

27/ربیع الثانی 1440ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب