65125 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | کئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان |
سوال
کیاخاتون اپنادودھ چھاتی سے نکال کرکسی کو ضرورت کے لیے ہبہ کرسکتی ہے ؟اسی طرح اگر کوئی خاتون چھاتی سے دودھ نکال کر کسی بچے کو پینے کے لیے دیدے تو اس کا کیاحکم ہوگا،جبکہ وہ بچہ چھاتی سے بھی دودھ پینے پر قادر ہو؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بہتر تو یہ ہے کہ بوقت ضرورت بچے کوچھاتی سے ہی دودھ پلایاجائے،کیونکہ؎ معروف طریقہ قدیم زمانے سےیہی چلاآیاہے، تاہم اگرعورت اپنی چھاتی سےدودھ نکال کر ضرورت مند بچے کونجی طورپر پینے کےلیےدیدے تو یہ بھی جائزہے،البتہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ یاد رکھے کہ کس کو دیا ہے تاکہ رشتہ رضاعت میں اشتباہ نہ ہو،تاہم یہ دودھ کسی "دوھ بینک" کو ہبہ کرنا صحیح نہیں، کیونکہ حرمتِ رضاعت کا مسئلہ شریعت میں انتہائی اہمیت کا حامل ہےاور دودھ بینک میں جمع کرانے کی صورت میں قانون شریعت کے ڈھانچہ کی دیوار ہی باقی نہ رہے گی اور حرمت رضاعت کا مسئلہ جڑ سے ختم ہوجائے گا؛ اس لئے کہ رضاعی بھائی، رضائی ماں ، رضاعی باپ، رضاعی چچا وغیرہ کی تعیین لازم ہے، تاکہ حرمت رضاعت کی رعایت کی جا سکے اور دودھ بینک کی شکل میں یہ سارے رشتے ختم ہوجائیں گے۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (1/ 344)
وكما يحصل الرضاع بالمص من الثدي يحصل بالصب والسعوط والوجور كذا في فتاوى قاضي خان.
قال أبو عمر ابن عبد البر : "هكذا إرضاع الكبير كما ذكر، يحلب له اللبن ويسقاه . أما أن تلقمه المرأة ثديها كما تصنع بالطفل فلا، لأن ذلك لا يحل عند جماعة العلماء . وقد أجمع فقهاء الأمصار على التحريم بما يشربه الغلام الرضيع من( لبن ) المرأة وإن لم يمصه من ثديها وإنما اختلفوا في السعوط به وفي الحقنة والوجور.... (أنظر شرح حديث 12 لمالك عن ابن شهاب عن عروة بن الزبير – التمهيد)
سید حکیم شاہ
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
27/ربیع الثانی 1440ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | سید حکیم شاہ | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |