021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
طلاق رجعی کے بعد رجوع کا طریقہ
66892طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میں مسمی عثمان فاروقی ولد محمد مسلم نے اپنی  بیوی عالیہ بنت انوار علوی کو اپنے موبائل فون سے میسج کے ذریعہ ایک طلاق رجعی دے دی ،پھر میں نے رجوع کرنا چاہا تو میں نے اپنے موبائل فون کے ذریعے تین ماہ کے اندر اندر اپنی بیوی کو یہ میسج  بھیجا  کہ اگر تو رجوع کرنا چاہتی ہو تو فون اٹھاؤ اور بات کرو اور اگر طلاق بائن چاہتی ہوتو فون مت اٹھاؤ اور بات مت کرو۔لیکن بیوی نے فون اٹھایا ہے اور بات میری بیٹی عمارہ نے کی ہے،لیکن میرے دل میں رجوع کا ارادہ تھا،اب مسئلہ یہ کہ رجوع ہوگیا ہے یا نہیں ہوا؟ قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

طلاق رجعی دینے کے بعد رجوع کےلیے دوباتوں کا پایا جانا ضروری ہے:

(1)۔رجوع عدت کے اندر ہو۔عدت مختلف قسم کی ہوسکتی ہے،اگر حیض والی خاتون ہے تو تین ماہواریاں،اگر حیض والی نہیں ہے تو تین مہینے اور اگر حاملہ ہوتو بچے کی ولادت پر عدت ختم ہوجاتی ہے۔

(2)۔رجوع قول یعنی زبانی ہو،مثلا:"میں رجوع کرتا ہوں"یا عملی ہو ،جیسے ہمبستری وغیرہ۔پھر بہتر  یہ ہےاس  رجوع پر دوگواہ  بھی بنالیے جائیں ،تاکہ بعد میں کوئی مشکل نہ ہو۔

صورت مسئولہ میں اگر یہ باتیں پائی جاتی ہیں،یعنی عدت کے اندر شوہر نے باقاعدہ  زبانی طور پر رجوع کے الفاظ کہے ہوں تو رجوع درست ہوگیا ہے۔

اوراگر عدت کے اندر اندر رجوع کی مندرجہ بالاقولی وعملی دوصورتوں میں سے کسی پر عمل نہیں ہوا(جیسا کہ سوال میں مذکور تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر نےرجوع کے حتمی الفاظ نہیں کہے ، بلکہ  رجوع کو خاتون کی مرضی پر موقوف کیا ہے)تو پھرشرعا رجوع درست نہیں ہوا ہے،لہذا اگر ابھی عدت کے دن باقی ہیں،توشوہر زبان سے  ایک دفعہ رجوع کے الفاظ کہہ کررجوع کرسکتا ہے۔اوراگر عدت گزر چکی ہے تویہ نکاح  بالکلیہ ختم ہوچکا ہے، اب شوہر رجوع نہیں کرسکتا،ہاں باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح ہوسکتاہے۔

حوالہ جات
وفی الشامیۃ (3/401):
قال في البحر :وأشار المصنف إلى أن الرجعة على ضربين سني وبدعي فالسني أن يراجعها بالقول ويشهد على رجعتها ويعلمها ولو راجعها بالقول ولم يشهد أو أشهد ولم يعلمها كان مخالفا للسنة كما في شرح الطحاوي ا هـ
وفی الدر المختار (3/ 436):
باب الرجعة بالفتح وتكسر، يتعدى ولا يتعدى.
(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) أي عدة الدخول حقيقة، إذ لا رجعة في عدة الخلوة… وتصح مع إكراه وهزل ولعب وخطأ (بنحو) متعلق باستدامة (راجعتك ورددتك ومسكتك) بلا نية لانه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس ولو منها اختلاسا أو نائما أو مكرها أو مجنونا أو معتوها إن صدقها هو أو ورثته بعد موته.
جوهرة.
 (و) تصح (بتزوجها في العدة) به يفتى…(إن لم يطلق بائنا) فإن أبانها فلا (وندب إعلامها بها) لئلا تنكح غيره بعد العدة، فإن نكحت فرق بينهما وإن دخل.
شمني (وندب الاشهاد) بعدلين ولو بعد الرجعة بالفعل (و) ندب (عدم دخوله بلا إذنها عليها) لتتأهب وإن قصد رجعتها لكراهتها بالفعل كما مر.
وفی الشامیۃ (3/ 440):
(وندب الإشهاد) احترازا عن التجاحد وعن الوقوع في مواقع التهم لأن الناس عرفوه مطلقا فيتهم بالقعود معها وإن لم يشهد صح والأمر في قوله تعالى * (وأشهدوا ذوي عدل) * (الطلاق 2) للندب زيلعي۔

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

10/محرم1441ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے