021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نماز کے فدیہ کا حکم
68970نماز کا بیانقضاء نمازوں کا بیان

سوال

سوال:بندہ کا پھوپھا کم وبیش17 یا 18 سال فالج کے مریض رہےابھی کچھ دن پہلے ان کا انتقال ہوا ہے۔انکی حالت یہ تھی کہ شروع میں تو وہ بیماری کے باوجود نمازیں پڑھتے رہے،لیکن گزشتہ تین سال سے وہ نمازیں نہیں پڑھ سکے۔انکی حالت یہ تھی کہ وہ پیشاب وغیرہ کے لئے بھی نہیں اٹھ سکتے تھےاور چارپائی پر ہی انکی پیشاب کی حاجت پوری کی جاتی،لیکن اس پورے دورانیے میں ان کا دماغی توازن ٹھیک رہا ۔اب پوچھنا یہ ہے کہ انتقال سےپہلے 3 سالوں کی نمازوں اور روزوں کے فدیہ کا کیا حکم ہوگا؟دوسرا یہ کہ پوری بیماری کی مدت میں جو روزے رہ گئے ہوں ان کے فدیہ کا کیا حکم ہوگا؟تیسرا یہ کہ اس فدیہ کی مقدار کیا ہوگی؟چوتھا یہ کہ ورثا ء کے ذمےاس فدیہ کو ادا کرنا لازم ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں آپ کے پھوپھاپر سابقہ تین سالوں کے دوران نماز کی ادائیگی فرض تھی،کیونکہ ان کا دماغی توازن ٹھیک تھا اور وہ چت لیٹےاشارہ سے نماز کی ادائیگی پر بھی قادر تھے۔اس دوران جو نمازیں انہوں نے ادا نہیں کیں اور اسی حالت میں وہ فوت ہوگئےتو شرعاً ان پر لازم تھا کہ قضاءنمازوں کے فدیے کی وصیت کر کے جاتے،لیکن اگر انہوں نے وصیت نہیں کی اور اسی حالت میں ا ن کاانتقال ہوگیا ،اسی طرح ان کے جو روزے قضاء ہوگئے اور اپنی زندگی میں انہوں نے ان روزوں کا فدیہ ادانہیں کیا تھااور نہ ہی ا پنے ترکہ میں سےاداکرنے کی وصیت کی تھی،تو ورثاء پرشرعاً لازم نہیں ہے کہ وہ ترکہ میں سےان کی قضاء نمازوں اور روزوں کا فدیہ اداکریں،البتہ اگر  ورثہ باہمی رضامندی سے ان کی نمازوں اور روزوں کافدیہ ادا کردیں تو یہ ان کی طرف سے میت پربڑااحسان ہوگا۔

لیکن ورثاء صرف اسی صورت میں ترکہ میں سے فدیہ دے سکتے ہیں جب تمام ورثاءعاقل بالغ ہوں،اگر کوئی بھی وارث نابالغ ہو تو ایسی صورت میں ترکہ کی تقسیم سے پہلے فدیہ کی ادائیگی کرنا جائز نہیں،البتہ تقسیم کے بعد کوئی وارث اپنے حصے سےیابعض ورثا ء مل کر ازخودان کا فدیہ ادا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔فدیہ کی مقدار یہ ہے کہ قضاءنمازوں اور روزوں کا اندازہ کر کے ہر ایک روزہ اوریومیہ چھ نمازوں(پانچ فرائض اور ایک وتر)میں سے ہر ایک کے بقدرپونے دو کلو گندم یا اس کی قیمت کسی فقیر کو دے دی جائے۔

حوالہ جات
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (4/ 498، بترقيم الشاملة آليا)
وفي كتاب القاضي الإمام أبي الحسين بن الفراء عن أنس رضي الله تعالى عنه أنه سأل رسول الله فقال يا رسول الله إذا نتصدق عن موتانا ونحج عنهم وندعو لهم فهل يصل ذلك اليهم قال نعم ويفرحون به كما يفرح أحدكم بالطبق إذا أهدي إليه وعن سعد أنه قال يا رسول الله إن أبي مات أفاعتق عنه قال نعم وعن ابي جعفر محمد بن علي بن حسين أن الحسن والحسين رضي الله عنهما كانا يعتقان عن علي رضي الله تعالى عنه وفي ( الصحيح ) قال رجل يا رسول الله إن أمي توفيت أينفعها أن أتصدق عنها قال نعم
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 99)
وإن تعذر القعود) ولو حكما (أومأ مستلقيا) على ظهره (ورجلاه نحو القبلة) غير أنه ينصب ركبتيه لكراهة مد الرجل إلى القبلة ويرفع رأسه يسيرا ليصير وجهه إليها
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72)
(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة
قال فی الرد تحتۃ: وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى

سیدقطب الدین حیدر  

دارالافتاءجامعۃالرشید کراچی

07/07/1441

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید قطب الدین حیدر بن سید امین الدین پاشا

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب