73332 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
میں اپنی بیوی سے فون پر بات کر رہا تھا اور سے بتا رہا تھا کہ کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہین جو کنایہ کہلاتے ہیں اگر ان کے بولنے میں نیت طلاق ہو تو طلاق ہو جاتی ہے ،تو میں انے اپنی بیوی کچھ مثالیں دی مثلا ’’تم فارغ ہو، تو آزاد ہے‘‘وغیرہ۔ جب میں نے یہ الفاظ بولے تو مجھے شک ہوا کہ کہیں ان الفاظ سے طلاق تو نہیں ہوئی، اور مجھے بار بار وسوسے آ رہے ہیں کہ کہیں کچھ برا تو نہیں ہوا۔ پھر خیال آیا کہ کہیں میری نیت طلاق کی تو نہیں تھی۔ حالانکہ سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے کہ میں اسے بتا رہا ہوں کہ کن الفاظ سے طلاق ہوتی ہے اور کیسے ہوتی ہے۔ میری شرعی رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
یہ الفاظ طلاق کا مسئلہ بتانے کیلیے کہے گئے تھے نہ کہ طلاق دینے کی نیت سے کہے گئے تھے ، پھر وسوسہ پیدا ہونا شروع ہوا۔ محض طلاق کے وسوسہ یا شک سے طلاق واقع نہیں ہوتی ،اس صورت میں کسی قسم کی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔ لہذا اس وہم کو مزید نہ بڑھایا جائے۔
حوالہ جات
شرح القسطلاني = إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري (8/ 147)
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إن الله تجاوز عن أمتي ما حدثت به أنفسها، ما لم تعمل أو تتكلم».
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 224)
وقال الليث: الوسوسة حديث النفس، وإنما قيل موسوس لأنه يحدث بما في ضميره وعن الليث لا يجوز طلاق الموسوس.
محمد عبدالرحمن ناصر
دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی
04/11/1442
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد عبدالرحمن ناصر بن شبیر احمد ناصر | مفتیان | آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |