03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نفقہ نہ ملنے کی بناء پرعدالت سے فسخِ نکاح کا مطالبہ
82225طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میری بہن کے نکاح کوعرصہ بارہ سال ہوچکے ہیں، ان کے شوہرکا ذاتی کوئی کاروبارنہیں ہے ،اوروہ بارہ سال کے عرصے سے اپنے اہل وعیال کا خرچہ اٹھانے سے قاصرہے ،دس سال شوہر نے اپنے والد کی جائیداد بیچ کر اپنے اہل وعیال کو کھلایاہے ،اب دو سال پہلے سے جب ان کے پاس ساری جائیدادختم ہوگئی تو انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو ان کے میکے چھوڑ کر بیرون ملک جانے کی ضد کی ،بیٹی کے والدنے اپنے ذاتی خرچہ (دو لاکھ)پر اس کو بیرون ملک کمانے کے لیے بھیجا،لیکن عرصہ دوسال سےاس نے وہاں سے کوئی خرچہ نہیں بھیجا،پھر بڑوں کے کہنے پر اس نے لوگوں سے ادھار لیکرپاکستان اپنی بیوی بچوں کو گواہوں کی موجودگی میں ٹھوڑی تھوڑی رقم کرکے سترہزاربھیجا،لیکن جن سے رقم ادھارلی ہے ان کو واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہےاس کا حتی کہ اس نے اپنا نمبر اوررہائش بھی بدل لی ہے ،پھر لوگوں نے لڑکی کے والدین کو فون کرناشروع کردیئے کہ آپ کے داماد نے ہم سے اتنی رقم ہتھیالی ہے، اوراب واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے ،پھر لڑکی نے عدالت میں خلع کا کیس دائرکیا، اس کو پیپروصول ہوچکاہے بذریعہ واٹس اپ۔مفتی صاحب!پوچھنایہ ہےکہ

١۔ آیا  اس صورتِ حال میں مذکورہ لڑکی کو خلع کا حق حاصل ہے یانہیں ؟

۲۔اس کی عدت کی مدت کیاہوگی اورکب سے شروع ہوگی؟آیا لڑکی کے پیپرزپر دستخط کرنے کے ساتھ ہی یا  پھرعدالت سے خلع کی ڈگری کے بعد سے ؟

میری بہن اس کے ساتھ بقیہ زندگی نہیں گزارناچاہتی تو اس صورتِ حال میں شریعت کاکیاحکم ہے ِاس مسئلے کو مدنظررکھتے ہوئے علیحدگی کا شرعی حکم تفصیلاً بتادیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ خلع شرعاً  ایک عقدہے،کسی بھی عقد کی طرح اس میں بھی طرفین کی رضامندی ضروری ہے،عدالت یکطرفہ خلع کی ڈگری جاری نہیں کرسکتی، ہاں فاضل عدالت بعض خاص صورتوں میں فسخِ نکاح کی ڈگری جاری کرسکتی ہےجیسے:

 ١۱۔شوہرنامردہو۔

۲۔ شوہر نان ونفقہ نہ دیتاہو۔

۳۔شوہر اتناغریب ہوکہ عورت کے نان ونفقہ کاانتظام نہ کرسکتاہو۔

۴۔شوہرکئی سالوں سے لاپتہ اوراس کاکوئی حال واحوال معلوم نہ ہو۔

 ۵۔ شوہر اس طرح پاگل ہوکہ عورت کواس سے جان کاخطرہ ہو۔

۶۔کوئی اورایسی وجہ ہو جو مذاہبِ اربعہ میں سے کسی مذہب کے مفتی بہ قول کے مطابق عدالتی فسخ کاسبب ہو۔

ان میں سے ہرایک کی الگ الگ تفاصیل ہیں جن کی رعایت شرعاًضروری ہے ،اگرکسی ایک شرط کی رعایت کے بغیر نکاح فسخ کیاجائے تووہ فسخِ نکاح نافذنہیں ہوگا۔

 سوال میں ذکرکردہ حالات اگرواقع کے مطابق ہوں توشرعی اعتبارسے شوہرکا مذکورہ رویہ درست نہیں ہےکہ وہ  نہ رابطہ کرتے ہیں اورنہ ہی خرچہ دیتے ہیں ؟ اوراس نے اپنا فون اورجگہ بدلی ہے، اس پر لازم ہے یا تو بیوی کواچھی طرح رکھے اوراس کے جملہ شرعی حقوق اداکرے ورنہ اچھی طرح رخصت کردے یعنی شرعی طریقے سے طلاق دیدے،بیوی  کولٹکاکے رکھناکسی طرح بھی شرعی اعتبارسے جائز نہیں ہے،لہذا خاوند اس پر توبہ اوراستغفارکرے اورمذکورہ دونوں راستوں میں سے کسی کاانتخاب کرے۔

مذکورہ عورت  پر بھی یہ بات واضح رہنا چاہیے کہ احادیث شریفہ میں بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنے والی عورت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اس کے لئے جنت کی خوشبوبھی  حرام ہے،تو اگر سوال میں مذکورحالات حقیقت پر مبنی نہ ہوں تو مذکورہ عورت ہر گز خاوند سے جدائی کا مطالبہ  نہ کرے ، آج کل کے معاشرے میں طلاق یافتہ /خلع یافتہ عورت کواچھی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا، اس کوآگے شادی میں بھی مشکلات ہوتی ہیں،عزت اورروزی کے حوالے سےبھی  مشکل کا سامنا کرنا پڑتاہے، لہذا اگرمذکورہ عورت کا کسی طرح بھی اپنے مذکور شوہرکے ساتھ گزارہ ہوسکتاہے تو سنجیدہ لوگوں کودرمیان میں ڈالکرمعاملہ کو رفع دفع کرے اوراپنا گھر نہ اجاڑے ورنہ پھر پچھتاوا ہوگا۔تاہم  اگر شوہر اپنے رویہ میں تبدیلی نہیں لاتا اور اپنا گھر بسانے پر تیار نہیں ہوتا،  نان ونفقہ  دینے پر راضی نہیں ہوتا اورمعززین کی بات بھی نہیں مانتا اور اپنی ضد پر اڑا رہتاہے، تو مذکورعورت  اپنے  شوہر سے اولاً طلاق کا مطالبہ کرکے کسی طرح طلاق حاصل کرنے کی کوشش کرے، اور اگر وہ طلاق دینے پر رضامند نہ ہو توپھر باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرنے کی کوشش کرے، اور خلع میں شوہر کے لیے بدلِ خلع یعنی خلع کے عوض مال لینا جائز نہ ہوگا،  تاہم لینے کے باوجود خلع ہوجائے گا اور نکاح ختم ہوجائے گا۔لیکن اگر شوہر نہ طلاق دے اور نہ ہی خلع  دینے پر رضامند ہو اور بیوی کے ساتھ نباہ پر اور اس کو نان ونفقہ دینے پر بھی تیار نہ ہو تو ایسی سخت مجبوری کی حالت میں  عدالت سے تنسیخِ نکاح کرایا جاسکتا ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ  عورت اپنا مقدمہ مسلمان جج کے سامنے  پیش کرے، اور متعلقہ جج  شرعی شہادت کے ذریعہ  معاملہ کی  پوری تحقیق کرے، اگر عورت کا دعویٰ گواہوں سے صحیح ثابت ہوجائے کہ اس کا شوہر  باوجود  وسعت کے  خرچہ نہیں دیتا تو اس کے  شوہر سے کہا جائے کہ عورت کے حقوق ادا کرو  یا  طلاق دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے، اس کے بعد بھی اگر  وہ کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو عورت پر طلاق واقع کردے،اس کے بعدعورت آزاد ہوجائےگی اورعدت کے بعد جہاں چاہے وہ نکاح کرسکے گی۔(ماخوذ از حیلہ ناجزہ، ص؛73،74/ ط؛ دارالاشاعت)

یہ یاد رہے کہ موجودہ زمانے میں عدالتوں سے جاری ہونے والی خلع کی اکثر ڈگریاں غیر شرعی بینادوں پر ہونے کی وجہ سے شرعاً غیر موثر ہوتی ہیں اوران سے نکاح ختم نہیں ہوتا،لہذا جب مذکورہ عدالت سے خلع لے تو کسی شرعی بنیاد مثلاًنفقہ نہ ملنے کی وجہ سے دعوی دائرکرے اوراپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں (دو دیانتدارمرد یا ایک مرد اوردو عورتوں کی گواہی سے ثابت بھی کریں)ورنہ غیر شرعی بنیاداوربغیرشرعی گواہوں کے ایک فریق کے بنانِ حلفی پر لیاجانے والا عدالتی فیصلہ شرعاًغیرمعتبرہوگا اوراس سے نکاح ختم نہیں ہوگا۔

اب آپ کے سوالوں کے مختصرجوابات درجِ ذیل ہیں:

١۔ ذکرکردہ حالات اگرواقع کے مطابق ہوں توشرعی اعتبارسےاس کو نفقہ نہ ملنے کی بناء پر خلع لینے کاحق حاصل ہے۔

۲۔اس کی عدت جج کے خلع کی ڈگری پر دستخط کرنے سے شروع ہوگی۔

حوالہ جات

وفی ردالمحتار:

"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده".(۳/۴۴۰، سعید)

وفی بدائع الصنائع

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، ولايستحق العوض بدون القبول". (۳/۱۴۵، سعید)

عن ثوبان رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أیما امرأۃ سألت زوجہا طلاقاً في غیر ما بأس فحرام علیہا رائحۃ الجنۃ۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۳۰۳ رقم: ۲۲۲۶، سنن الترمذي رقم: ۱۱۸۷، مسند أحمد ۵؍۲۷۷، مشکاۃ المصابیح ۲۸۳ رقم: ۳۲۷۹، المستدرک للحاکم ۲؍۲۱۸ رقم: ۲۸۰۹، السنن الکبریٰ للبیہقي ۷؍۳۱۶)

سنن الترمذي - (ج 2 / ص 329)

عن ثوبان ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (المختلعات هن المنافقات) هذا حديث غريب من هذا

الوجه وليس إسناده بالقوى . وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : (أيما امرأة اختلعت من زوجها من غير بأس ، لم ترح رائحة الجنة) 1199 حدثنا بذلك محمد بن بشار . حدثنا عبد الوهاب الثقفى حدثنا أيوب ،عن أبى قلابة ، عمن حدثه ، عن ثوبان : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : (أيما امرأة سألت زوجها طلاقا من غير باس ، فحرام عليها رائحة الجنة) وهذا حديث حسن .

قال اللّٰہ تعالیٰ:

 {فَاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لَا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ} (البقرۃ: ۲۲۹)قد صرح في الخانیۃ: بأنہا لو أبرأتہ عمالہا علیہ علی أن یطلقہا، فإن طلقہا جازت البراء ۃ وإلا فلا۔ (شامي ۵؍۱۰۷ زکریا، ۳؍۴۵۴)

وفی الھندیۃ (۴۸۸/۱):

إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية۔

وفی الشامیۃ (۴۴۱/۳):

قوله ( للشقاق ) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم  وفي القهستاني عن شرح الطحاوي السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع اهـ ط وهذا هو الحكم المذكور في الآية وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب ۔

وفی البحرالرائق  کتاب الطلاق( ج ۳ ص ۲۵۳)

واما سبعہ فالحاجۃ الی الخلاص عند تبائن الا خلا ق و عروض البغضاء المو جبۃ عدم اقامۃ حدود اﷲ الخ ویکون واجبااذا فات الا مساک بالمعروف .

وفي الہدایۃ:

وإن تشاق الزوجان وخافا أن لا یقیما حدود اللہ، فلا بأس بأن تفتدي نفسہا منہ بمال یخلع بہ۔ لقولہ تعالیٰ:

فلا جناح علیہما فیما افتدت بہ، فإذا فعل ذٰلک وقع بالخلع تطلیقۃ بائنۃ ولزمہا المال، …وإن طلقہا علی مال، فقبلت وقع الطلاق ولزمہا المال۔ (ہدایۃ، کتاب الطلاق، باب الخلع، اشرفی دیوبند ۲/۴۰۴)

وفی الحیلة الناجزة :

"والمتعنت الممتنع عن الإنفاق  ففي مجموع الأمیر ما نصه : إن منعھا نفقة الحال فلها القیام فإن لم یثبت

عسرہ أنفق أو طلق و إلا طلق علیه، قال محشیه : قوله وإلا طلق علیه أي طلق علیه الحاکم من غیر تلوم... إلي أن قال: وإن تطوع بالنفقة قریب أو أجنبي فقال ابن القاسم: لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها،  وقال ابن عبدالرحمن:  لا مقال لها لأن سبب الفراق  هو عدم النفقة قد انتهی وهو الذي تقضیه المدونة؛ کما قال ابن المناصب، انظر الحطاب، انتهی." (ملخص از حیله ناجزہ، صفحه نمبر73،ط: دار الإشاعت)

الفواكه الدواني على رسالة ابن أبي زيد القيرواني ج۵ ص۲۲۵ 

ومحل التأجيل المذكور إن كان للمفقود مال تنفق منه المرأة على نفسها في الأجل ، وأما إن لم يكن له مال فلها التطليق عليه بالإعسار من غير تأجيل لكن بعد إثبات ما تقدم ، وتزيد إثبات العدم واستحقاقها للنفقة وتحلف مع البينة الشاهدة لها أنها لم تقبض منه نفقة هذه المدة ولا أسقطتها عنه ، وبعد ذلك يمكنها الحاكم من تطليق نفسها بأن توقعه ويحكم به أو يوقعه الحاكم ، ومثل المفقود من علم موضعه وشكت زوجته من عدم النفقة يرسل إليه القاضي : وإما أن تحضر أو ترسل النفقة أو تطلقها ، وإلا طلقها الحاكم ، بل لو كان حاضرا وعدمت النفقة قال خليل : ولها الفسخ إن عجز عن نفقة حاضرة لا ماضية ، ثم بعد الطلاق تعتد عدة طلاق بثلاثة أقراء للحرة وقرأين للأمة فيمن تحيض ، وإلا فثلاثة أشهر للحرة والزوجة الأمة لاستوائهما في الأشهر

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

26/3/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب