کمپنی میں کام کرنے والے ملازم کو کس وقت نکالا جا سکتا ہے؟کیا محض اپنی رائے یا پسند نا پسند کے تحت اسکو نکالنے کا اختیار ہوتا ہے ؟ہمارے یہاں ایک صاحب کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں بلکہ معاہدہ کے اختتام تک اسے نہیں نکالا جا سکتا چاہے وہ کوئی سنگین غلطی ہی کیوں نہ کردے۔ تو کیا انکا کہنا درست ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ملازمین کا ادارہ کے ساتھ عقد اجارہ ہوتاہے،اور ملازم اجیر خاص ہے،اوراجارہ کاحکم یہ ہے کہ اجارہ طے شدہ مدت میں عقد لازم ہےبغیرمعتبر عذر کےفریقین کی رضامندی کے بغیراس عقدکو یکطرفہ فسخ کرنے کا کسی کو حق نہیں ، لہذا اگر ادارہ میں ملازم کے تقرر کرنے اور معزول کرنے کا کوئی ضابطہ مقرر ہے اور تقرری کےوقت آپ سےاس ضابطہ پر عمل کرنے کی بات بھی طے کی گئی ہو اور اس ضابطہ کے مطابق ملازم سے اگر کوئی ایسا فعل صادر ہواہوجو معاملہ ختم کرنے کا باعث ہے تو ایسی صورت میں ضابطہ کے تحت ملازم کو معزول کرنے کا حق ہے،اورملازم کو ادارہ کے ضابطہ کے مطابق کسی سنگین غلطی کیوجہ سے نکالنا شرعاً جائز ہے۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع (4 / 201)
وأما صفة الإجارة فالإجارة عقد لازم إذا وقعت صحيحة عرية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامةالعلماء فلا تفسخ من غير عذر وقال شريح إنها غير لازمة وتفسخ بلا عذر لأنها إباحة المنفعة فأشبهت الإعارة، ولنا أنها تمليك المنفعة بعوض فأشبهت البيع وقال سبحانه وتعالى { أوفوا بالعقود } والفسخ ليس من الإيفاء بالعقد.
الفتاوى الهندية (4 / 412):
(وأماصفتها) فهي عقد لازم إذا كانت صحيحة عارية عن خيار الشرط والعيب والرؤية عند عامة العلماء، هكذا في البدائع.
وحاشية ابن عابدين (6 / 81):
وفي حاشيتها لأبي السعود عن البيري: والحاصل أن كل عذر لا يمكن معه استيفاء المعقود عليه إلا بضرر يلحقه في نفسه أو ماله يثبت له حق الفسخ.
الفتاوى الهندية (4 / 458):
وكل عذر لا يمنع المضي في موجب العقد شرعا ولكن يلحقه نوع ضرر يحتاج فيه إلى الفسخ. كذا في الذخيرة. وإذا تحقق العذر ومست الحاجة إلى النقض هل يتفرد صاحب العذر بالنقض أو يحتاج إلى القضاء أو الرضاء اختلفت الروايات فيه والصحيح أن العذر إذا كان ظاهرا يتفرد، وإن كان مشتبها لا يتفرد. كذا في فتاوى قاضي خان
الفتاوى الهندية (4 / 461):
ولو كان العبد غير حاذق للعمل الذي استأجره عليه فهذا لا يكون عذرا للمستأجر في فسخ الإجارة فإن كان عمله فاسدا كان له الخ