1. ایک شخص لاٹری رکھنا چاہتا ہے جو کہ 45 ماہ پر مشتمل ہوگی 100ممبر ہونگے۔ہر ممبر 1000 روپےجمع کرائیگا۔ہر ماہ ایک ممبر کوقرعہ اندازی کے ذریعے موٹر سائیکل دی جائیگی جس کی قیمت خرچہ ملا کر 45000 روپے ہےاورجو ممبرہرماہ 1000 روپے جمع کرارہا ہے یہ گاڑی کی قیمت شمار کی جائیگی نہ کہ قرض اسی طرح جس ممبر کی گاڑی قرعہ اندازی کے ذریعہ نکل جاتی ہےوہ بھی 45 ماہ تک 1000 روپے جمع کرا تا رہیگا۔
2. اگر کوئی ممبر 45 ماہ سے پہلے موٹر سائیکل لینا چاہتا ہےتو اسے 15000 ایڈوانس دینے ہونگے جو کہ قرض ہونگے اور وہ 15000 اسے 45 ماہ بعد واپس کردیے جائیں گے باقی ممبران کو 45 ماہ بعد موٹر سائیکل دی جائے گی۔لاٹری جمع کرنے والا شخص موٹر سائیکل کی قیمت 45 ہزار نکال کر بقایا 55 ہزار سے کوئی بھی کاروبار کر یگا۔
کیا ایسی لاٹری رکھنا جائز ہے یا ناجائز؟ اور اس شخص کیلے بقایا رقم سے کاروبار کرنا اور منافع حاصل کرنا کیسا ہے؟؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
1:مذکورہ صورت مسئلہ میں ایسی لاٹری کے ذریعہ بائیک خریدنا جائز نہیں کیونکہ شرعا مبیع کو مؤجل کرنا درست نہیں اور اسکی بیع فاسد ہے اور ایسی لاٹری کا کاروبارکرنا بھی درست نہیں ۔
2. 15000قرض دیکر فوری بائیک وصول کرنا (جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اور فون پر بھی سائل نے یہ تصدیق کی کہ وہ رقم قرض ہی ہے جو 45 ماہ بعد واپس کردی جائے گی) جائز نہیں کیوں کہ وہ سود ہےاور قرض کی وجہ سے اسے یہ سہولت حاصل ہوئی۔
البتہ اگر ابتدائی طور پر حاصل ہونے والی رقم کو بائیک کی قیمت بنانے کے بجائے بطور قرض وصول کرکے وعدہ بیع کرلیاجائے اور پھر بذریعہ قرعہ اندازی جس شخص کو بائیک مل جائے اس سے باقاعدہ عقد بیع کرلیا جائے اور ادا شدہ رقم کو بائیک کی قیمت اور باقی قیمت کو قسط شمار کرلیا جائے ۔اور جس شخص کو بغیر قرعہ اندازی کے بائیک درکار ہو تو 15000 کی رقم کو ماہانہ اقساط/قیمت میں شمار کر لیا جائے(یعنی ثمن کا جز بنالیا جائے) تو اس صورت میں یہ کاروبار کرنا جائز ہوگا۔
حوالہ جات
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 59)
(قوله: لا يجوز البيع إلى هذه الآجال) أي لجهالة الأجل وعلم بهذا التعليل أن المراد بالمؤجل هنا هو الثمن لا المبيع؛ لأن مجرد تأجيل المبيع مفسد ولو كان إلى أجل معلوم فلا يناسب تعليل فساد تأجيل المبيع لجهالة الأجل قاله الكمال ثم قال واعلم أن كون التأجيل في الثمن يصح إذا كان الأجل معلوما هو في الثمن الدين أما لو كان الثمن عينا فيفسد البيع بالأجل للمعنى الذي ذكرناه مفسدا لتأجيل المبيع
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 531)
(قوله: وصح بثمن حال) بتشديد اللام قال: في المصباح: حل الدين يحل بالكسر حلولا. اهـ.
قيد بالثمن؛ لأن تأجيل المبيع المعين لا يجوز ويفسده بحر.
مسند الحارث - زوائد الهيثمي 1/ 500
حدثنا حفص بن حمزة أنبأ سوار بن مصعب عن عمارة الهمداني قال سمعت عليا يقول قال رسول الله صلى الله عليه و سلم كل قرض جر منفعة فهو ربا
المبسوط للسرخسي 13/ 8
العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد
المجلہ الأحكام العدلية رقمُ المادہ ۲۴۵
البیعُ مع تاجیل الثمن وتقسیطہ صحیح
مجلة الأحكام العدلية ص: 33
(المادة 157) التقسيط تأجيل أداء الدين مفرقا إلى أوقات متعددة معينة.