83650 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
ہمارے گاؤں میں جب شادی ہوتی ہے تو جس دن کھانے کی دعوت عام ہوتی ہے، اس دن سب لوگوں سے رقم لی جاتی ہے اور کاپی پر سب کے نام اور رقم لکھی جاتی ہے؛ تاکہ کل کسی وقت ان کی شادی کے موقع پر ہم بھی رقم دے سکیں۔
پوچھنا یہ ہے کہ یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟ کیونکہ کوئی زیادہ رقم واپس کرتا ہے اور کوئی برابر۔ نیز اگر یہ رقم مسجد کے نام پر لی جائے اور مسجد پر خرچ ہو تو کیا یہ جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
نیوتہ کی مذکورہ رسم متعدد شرعی خرابیوں کی بنیاد پر جائز نہیں، اس سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔ یہ رقم مسجد کے نام پر لینا بھی جائز نہیں۔ البتہ مذکورہ طریقے سے بچتے ہوئے اور بدلے کی امید اور طمع کے بغیر اپنی دلی رضامندی سے کسی کو خوشی یا غمی کے موقع پر پیسے یا کوئی اور چیز بطورِ ہدیہ دینا جائز ہے۔
حوالہ جات
رد المحتار (5/ 696):
وفي الفتاوى الخيرية: سئل فيما يرسله الشخص إلى غيره في الأعراس ونحوها، هل يكون حكمه حكم القرض، فيلزمه الوفاء به أم لا؟
أجاب: إن كان العرف بأنهم يدفعونه على وجه البدل يلزم الوفاء به، مثليا فبمثله وإن قيميا فبقيمته، وإن كان العرف خلاف ذلك بأن كانوا يدفعونه على وجه الهبة ولاينظرون في ذلك إلى إعطاء البدل فحكمه حكم الهبة في سائر أحكامه، فلا رجوع فيه بعد الهلاك أو الاستهلاك. والأصل فيه أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا، اهـ.
قلت: والعرف في بلادنا مشترك، نعم في بعض القرى يعدونه قرضا، حتى إنهم في كل وليمة يحضرون الخطيب، يكتب لهم ما يهدي، فإذا جعل المهدي وليمة يراجع المهدي الدفتر، فيهدي الأول إلى الثاني مثل ما أهدى إليه.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
20 /شوال المکرم/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |