83763 | جائز و ناجائزامور کا بیان | خریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل |
سوال
میرے شوہر کا بھانجا UBL بینک میں جاب کرتا ہے،آپ راہنمائی فرمائیں کہ ان کے گھر جاکر کھانا پینا کیسا ہے؟ جبکہ ان کے شوہر(سائلہ کی نند کا شوہر اور بھانجے کا والد) اور تین بیٹے (یعنی بھانجے کے بھائی)بھی دوسرے مختلف کام کررہے ہیں اور سب ساتھ ہیں،اگر ہم ان سے ملنا جلنا چھوڑدیں گے تو انہیں خیر کی طرف کیسے بلاسکتے ہیں؟
اور اگر ملیں تو اس کے لئے کیا صورت اختیار کریں؟برائے مہربانی تفصیلی راہنمائی فرمائیں،تاکہ ہم کسی بھی قسم کی خرابی اور قطع رحمی سے بچ سکیں۔
تنقیح:سائل نے فون پر بتایا کہ شوہر سے مرادسائلہ کی نند کا شوہر اور بھانجے کا والد ہے،نیز والد اور بقیہ بیٹوں کی آمدن بینک میں جاب کرنے والے بیٹے سے زیادہ ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ اس گھر میں موجود بقیہ افراد کی آمدن حلال ہے اور اس کا تناسب بینک میں کام کرنے والے فرد کی آمدن سے زیادہ ہے،لہذا آپ کے لئے ان کے گھر جاکر کھانے پینے کی گنجائش ہے۔
حوالہ جات
"المحيط البرهاني في الفقه النعماني "(5/ 367):
"واختلفت الصحابة ومن بعدهم في جواز قبول الهدية من أمراء الجور، فكان ابن عباس وابن عمر رضي الله عنهم يقبلان هدية المختار، وعن إبراهيم النخعي: أنه كان يجوز ذلك، وأبو ذر وأبو درداء كانا لا يجوزان ذلك، وعن علي رضي الله عنه: أن السلطان يصيب من الحلال والحرام، فإذا أعطاك شيئاً فخذه، فإن ما يعطيك حلال لك، وحاصل المذهب فيه أنه إن كان أكثر ماله من الرشوة والحرام لم يحل قبول الجائزة منه ما لم يعلم أن ذلك له من وجه حلال، وإن كان صاحب تجارة وزرع وأكثر ماله من ذلك، فلا بأس بقبول الجائزة ما لم يعلم أن ذلك له من وجه حرام، وفي قبول رسولﷲ عليه السلام الهدية من بعض المشركين دليل على ما قلنا.
وفي «عيون المسائل» : رجل أهدى إلى إنسان أو أضافه إن كان غالب ماله من حرام لا ينبغي أن يقبل ويأكل من طعامه ما لم يخبر أن ذلك المال حلال استقرضه أو ورثه، وإن كان غالب ماله من حلال فلا بأس بأن يقبل ما لم يتبين له أن ذلك من الحرام؛ وهذا لأن أموال الناس لا تخلو عن قليل حرام وتخلو عن كثيره، فيعتبر الغالب ويبنى الحكم عليه".
محمد طارق
دارالافتاءجامعۃالرشید
04/ذی قعدہ1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طارق غرفی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |