84020 | طلاق کے احکام | طلاق کے متفرق مسائل |
سوال
بیوی اپنے والدین کے گھرگئی ہوئی تھی،خاوندنے بیوی کومیسج کیاکہ اگرآپ آٹھ بجے تک میرے گھر واپس نہیں گئی توکہانی ختم شد اورجوتیرے پاس موبائل اورسم ہے یہ واپس کردینا،اس کاشرعی حکم کیاہے؟
واضح رہےشوہرکاکہنایہ ہے کہ جب میں نےمیسج کیاتومیری نیت کیاتھی تو یہ مجھے یاد نہیں؟اگرطلاق ہوگئی ہے تومہروغیرہ کاکیاحکم ہے؟نیزتجدیدنکاح ممکن ہے یانہیں؟اوراس کی کیاصورت ہوگی؟
تنقیح:سائل نے بتایاہےکہ یہاں ایک مفتی صاحب کو یہ شخص کہہ رہے ہیں میری نیت ڈرانے کی تھی۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
یہ کنائی الفاظ میں سے ہے،اگر طلاق کی نیت تھی تواس سے ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے،اگرمرد نے ابھی تک مہر ادانہیں کیاہے تومہرکی ادائیگی بھی فوری طورپرلازم ہے،طلاق بائن کاحکم یہ ہوتاہے کہ اسی مرد سے عدت میں اورعدت کے بعدبھی نکاح کے ذریعہ رجوع ہوسکتاہے اوراگرشوہرطلاق کی نیت ہونے کاانکارکرتاہے اوطلاق کی نیت نہ ہونے پر قسم بھی اٹھاتاہے تواس جملہ سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
واضح رہے اگرکوئی غلط بیانی کرکے جھوٹ بولتاہے یاقسم اٹھاتاہے تواس سے حرام چیزحلال نہیں ہوجاتی،اس لئے صورت مسؤلہ میں اگرمرد کی طلاق کی نیت تھی،لیکن پھربھی جھوٹی قسم اٹھاتاہے تواس سے عورت حلال نہیں ہوگی۔
حوالہ جات
فی الفتاوى الهندية (ج 8 / ص 325):
ولو قال لها لا نكاح بيني وبينك أو قال لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى۔
فی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج 9 / ص 367):
لم يبق بيني وبينك عمل لم تطلق إلا أن ينوي به النكاح وينوي به إيقاع الطلاق فحينئذ ۔
وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج 9 / ص 375):
ولو قال : لا نكاح بيننا يقع الطلاق ، والأصل أن نفي النكاح أصلا لا يكون طلاقا بل يكون جحودا ونفي النكاح في الحال يكون طلاقا إذا نوى وما عداه فالصحيح أنه على هذا الخلاف قيد بالنية لأنه لا يقع بدون النية اتفاقا لكونه من الكنايات ولا يخفى أن دلالة الحال تقوم مقامها حيث لم يصلح للرد ، والشتم ويصلح للجواب فقط وقدمنا أن الصالح للجواب فقط ثلاثة ألفاظ ليس هذا منها فلذا شرط النية للإشارة إلى أن دلالة الحال هنا لا تكفي۔
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۲/ذی الحجہ ۱۴۴۵ ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |