84042 | طلاق کے احکام | طلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان |
سوال
میاں بیوی میں تعلقات خراب ہوں،اوروہ چارسال سے دونوں الگ رہ رہے ہوں تو کیا اس سے نکاح ختم ہو جائے گا ؟بیوی اور اس کے گھر والے طلاق کا مطالبہ کر رہے ہیں،جبکہ شوہر طلاق نہیں دینا چاہتا ، وہ کہتا ہےکہ جھگڑے کی وجہ درست کرو، لیکن بیوی کے گھر والے طلاق کے لیے بضد ہیں اور عدالت جانے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں۔میاں بیوی کے تین بچے بھی ہیں اور بڑا بیٹا تیرہ سال کا ہے،کافی ٹینشن چل رہی ہے۔شوہر اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے، خرچ بھی دیتا ہے،کوئی بدتمیزی نہیں کرتا ،جبکہ بیوی ایسی ہو گئی ہے جیسے جانتی ہی نہیں۔
تنقیح:استفسارپر سائل نے وضاحت کی کہ شوہر اپنی والدہ کے گھر میں رہتا ہےاور بیوی اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ رہتی ہے،جو اس کو والدین کی طرف سے جائداد کے حصے میں ملا ہے۔ چار سال پہلے معمولی سی بات پر بیوی نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر شوہر سے کافی بدتمیزی کی اور شوہر کو گھر سےنکال دیا، اس کے بعد سے شوہر نے خاموشی اختیار کر لی اوراب تک دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن وہ مکمل ماہانہ خرچہ دیتا ہےاوربچوں سے ملنے جاتا ہے۔ اب اچانک بیوی اور اس کے گھر والوں نے طلاق کا بھرپور مطالبہ شروع کر دیا ، ان کا کہنا ہے کہ اتنا عرصہ الگ رہنے سے نکاح ختم ہو چکا ہے۔ بیوی کے گھر والوں نے مرزا جہلمی کا کوئی بیان سن لیا ہے، جس سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ نکاح ختم ہو گیا ہے،اور وہ کسی عالم کے پاس جانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔دوسری طرف شوہر مناسب حد تک دین دار ہے، وہ طلاق دینے سےانکار کر رہا ہےاور کہتا ہےکہ بیوی اپنا رویہ اور زبان درست کرے تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن بیوی طلاق ہی کی ڈیمانڈ کر رہی ہےاور وہ شوہر کی شکل سے بھی نفرت کرتی ہے،نیز بیوی کے خاندان والےآدھے افراد شوہر کے ساتھ ہیں اورآدھے بیوی کے ساتھ ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چار سال سے الگ رہنے کے باوجود بھی اگر شوہر نے ابھی تک طلاق نہیں دی تومحض الگ رہنے سے طلاق واقع نہیں ہوئی،جبکہ شوہر اپنی طرف سے نان نفقے کی ذمہ داری بھی پوری کر رہا ہے،البتہ بیوی کا شوہر کی نافرمانی کرکے الگ رہنا گناہ ہے، جس پر بیوی کو توبہ و استغفار لازم ہے۔نیز جب شوہر ابھی تک بیوی کو نصیحت یا کچھ سختی کرکے اپنا معاملہ درست نہیں کر سکا، اور دوسری طرف بیوی کی نافرمانی بھی واضح ہےتو اب میاں بیوی دونوں کے خاندان سے ایک ایک سمجھدار شخص کو مصالحت کے لیےبھیجا جائے،جوبیوی کو شوہر کی اطاعت کے بارے میں نصیحت کریں، اگر وہ بغیر کسی معقول وجہ کے شوہرکے نکاح میں رہنےسے انکار کرے توشوہر کومہرواپس کر کےاس سے خلع لینے کا کہیں۔
چنانچہ اگر وہ خلع لینے پر راضی ہوتو شوہر مہر کی رقم قبول کرکے خلع دے سکتا ہے،لیکن اگر شوہر خلع یا طلاق دینے پر راضی نہ ہو تو عدالت بلاوجہ اس نکاح کو ختم نہیں کر سکتی،اگر اس صورت میں عدالت عورت کے حق میں فیصلہ کرتی ہے تو یہ فیصلہ شریعت کی رو سے لغو اور کالعدم ہے،اس کی کوئی حیثیت نہیں ،میاں بیوی کا نکاح تاحال برقرار ہے اور رہے گا۔
عدالتی فیصلے کے باوجود عورت شوہر کے نکاح میں رہے گی ،کسی اور جگہ نکاح کی اجازت نہیں ہے،اگر کرے گی تو صریح حرام کاری کی مرتکب ہوگی،اور ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کو اس سے بائیکاٹ کرنا لازم ہوگا۔
حوالہ جات
التفسير المظهري (2 ق 2/ 101):
والخوف (فی قولہ:"وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا")بمعنى الظنّ يعنى إذا ظهر من الزوجين ما ظننتم به تباغضهما واشتبه حالهما فى الحق والباطل فَابْعَثُوا الى الرجل حَكَماً يعنى رجلا عاقلا عادلا يصلح للحكومة مِنْ أَهْلِهِ وَابعثوا الى المرأة رجلا اخر حَكَماً مِنْ أَهْلِها ...ولو بعثوا أجنبيين جاز فيبحث الحكمان عن أحوالهما ويعرفان الظالم منهما فان كان الظلم من الزوج امراه بامساك بمعروف او تسريح بإحسان وان كان النشوز منها امراها باطاعة الزوج او الافتداء .
الهداية في شرح بداية المبتدي (2/ 261 ):
"وإذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به " لقوله تعالى: {فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} " فإذا فعلا ذلك وقع بالخلع تطليقة بائنة ولزمها المال " لقوله عليه الصلاة والسلام: " الخلع تطليقة بائنة ".َ
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 441):
وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع وإن لم تقبل لأنه طلاق بلا عوض فلا يفتقر إلى القبول اهـ
محمدعبدالمجیدبن مریدحسین
دارالافتاء جامعۃ الرشید ،کراچی
2/ذوالحجہ/1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمدعبدالمجید بن مرید حسین | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |